Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پیکا آرڈیننس کیس: ’پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی درخواستوں کو سننا بنتا ہی نہیں‘

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ آرڈیننس آئین کے آرٹیکل 19 سے متصادم ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
اسلام آباد ہائی کورٹ نے پیکا آرڈیننس کے سیکشن 20 کے تحت ایف آئی اے کو گرفتاریوں سے روکنے کے حکم میں توسیع کر دی ہے جبکہ اٹارنی جنرل نے عدالت سے سیکشن 20 پر مزید دلائل کے لیے مہلت طلب کی ہے۔
جمعرات کو دوران سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بظاہر عدالت کے پاس سیکشن 20 ختم کر دینا چاہیے لیکن عدالت ہمیشہ کی طرح تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے وقت دے رہی ہے۔
اٹارنی جنرل نے دلائل میں موقف اپنایا کہ حکومت سیکشن 20 کے حوالے سے سیف گارڈ متعارف کرا دے گی۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ بات سیف گارڈ سے بہت آگے نکل چکی ہے۔  
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پیکا آرڈیننس کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی۔ عدالتی حکم پر اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے عدالت میں پیش ہوئے۔
 دوران سماعت چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ حکومت نے اس آرڈیننس کو نیب کے قانون سے بھی بدتر کر دیا ہے۔ عدالت کو کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ پیکا آرڈیننس ڈریکونین قانون ہے۔ اس آرڈیننس کے بعد لوگوں نے تو ڈر کے مارے کچھ لکھنا ہی نہیں ہے۔ 
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ حکومت کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ یہ لگ ہی نہیں رہا تھا کہ جمہوری ملک میں یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔‘
جسٹس اطہر من اللہ اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ عدالت پیکا ایکٹ کا سیکشن 20 کیوں نہ کاالعدم قرار دے؟ اٹارنی جنرل نے دلائل میں کہا کہ ’میں نہیں سمجھتا کہ یہ قانون غیر آئینی ہے۔ آج ایک درخواست دائر ہوئی ہے جس کو دیکھ کر حیران ہوا۔ جنھوں نے یہ قانون بنایا انھوں نے آج پٹیشن دائر کر دی۔‘
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ یہ آرڈیننس آئین کے آرٹیکل 19 سے متصادم ہے۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو ترمیمی آرڈیننس کے اثرات اور نتائج پر کابینہ ارکان سے مشاورت کی یقین دہانی کرائی۔ عدالت نے پیکا آرڈیننس کے سیکشن 20 پر حکم امتناع میں توسیع کرتے ہوئے سماعت دس مارچ تک ملتوی کر دی۔  
دوسری جانب عدالت نے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی جانب سے پیکا آرڈیننس کے خلاف دائر درخواستیں مسترد کر دیں۔  
چیف جسٹس نے کہا کہ ’پیپلز پارٹی کے دور میں سب سے زیادہ آرڈینینس جاری ہوئے جبکہ ن لیگ نے تو پیکا ایکٹ بنایا تھا۔ اس لیے ان کی درخواستوں کو سننا بنتا ہی نہیں۔‘
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی سیاسی جماعتیں ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو عدالت کے بجائے پارلیمنٹ کا فورم استعمال کرنا چاہیے۔  

شیئر: