Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پیکا آرڈیننس واپس نہیں لیں گے، غلط استعمال روکا جائے گا: اٹارنی جنرل

اسلام آباد ہائی کورٹ نے پیکا کے تحت گرفتار نہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ فوٹو اے ایف پی
حکومت نے الیکٹرانک کرائم کی روک تھام کے لیے نافذ کیے گئے آرڈیننس کو واپس نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے تاہم قانون کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے اقدامات وضع کیے جائیں گے۔
اٹارنی جنرل پاکستان خالد جاوید خان نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’پیکا آرڈیننس کو واپس نہیں لیا جا رہا تاہم اس قانون کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے اقدامات ضرور اٹھائیں جائیں گے۔‘
پیکا آرڈیننس میں ترمیم سے متعلق سوال پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’اس آرڈیننس میں ترمیم نہیں کی جائے گی جبکہ ایسی دفعات اور ایس او پیز وضع کیے جائیں گے جن سے اس کے غلط استعمال کو روکا جا سکے۔‘
انہوں نے واضح کیا کہ دفعات اور ایس او پیز ترمیم کے بغیر شامل کی جا سکتی ہیں اور قانون میں اس کی گنجائش موجود ہے۔
اٹارنی جرنل کے مطابق ’موجودہ آرڈیننس ہر کیس پر لاگو نہیں ہوگا، اس میں ایسے ایس او پیز وضع کیے جائیں گی جس سے یہ یقینی بنایا جائے گا کہ اس کا غلط استعمال ممکن نہ ہو۔‘
انہوں نے کہا کہ جمعرات کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں ان ایس او پیز اور دفعات کو پیش کریں گے اور اس حوالے سے مزید تفصیلات بھی عدالت کے سامنے رکھی جائیں گی۔
واضح رہے کہ پیکا آرڈیننس کو پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلنسٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے جبکہ حزب اختلاف کی جماعت مسلم لیگ ن نے بھی اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ 
اسلام آباد ہائی کورٹ نے صحافتی تنظیم کی درخواست پر وفاقی تحقیقاتی ادارے کو پیکا آرڈیننس کی شق 20 کے تحت گرفتاری سے روکتے ہوئے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کر دیا ہے۔

پی ایف یو جے نے پیکا آرڈیننس اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔ فائل فوٹو اے ایف پی

ڈیجیٹل حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی سرگرم کارکن نگہت داد کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا قوائد جب عدالت میں چیلنج ہوئے تھے تو تب بھی اٹارنی جنرل نے یہی موقف اپنایا تھا۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ جب ایک آرڈیننس جاری ہو گیا ہے تو اس میں اب کیا قوائد و ضوابط جاری کریں گے؟
نگہت داد کا کہنا تھا کہ ’حکومت کا ہمیشہ سے یہی رویہ رہا ہے کہ ایک غلط قانون کو آرڈیننس کے ذریعے لایا جاتا ہے اور جب وہ عدالت میں چیلنج ہو جائے تو کہتے ہیں کہ ہم یقینی بنائیں گے کہ اس کا غلط استعمال نہ ہو لیکن مسئلہ اس وقت حل ہوتا ہے جب آرڈیننس کو واپس لیا جائے۔‘
انہوں نے کہا کہ نہ آرڈیننس کو واپس لیا جاتا ہے نہ اسے معطل کیا جاتا ہے، تو پھر کیسے تحفظ فراہم کریں گے؟
’اس طرح کے اقدامات قانون سے متعلق ابہام پیدا کرتے ہیں، کیا اس وقت قانون نافذ ہے یا نہیں ہے؟ یہی صورتحال سوشل میڈیا قواعد بناتے وقت بھی تھی۔‘
نگہت داد نے مطالبہ کیا کہ حکومت اگر سنجیدہ ہے کہ اس قانون کا غلط استعمال نہ ہو تو آرڈیننس کو واپس لے اور مکمل مشاورت کے بعد اس میں ترمیم کی جائے۔

شیئر: