ساحلوں پر ’تجارتی سرگرمیاں‘ سبز کچھوؤں کے لیے خطرہ
ساحلوں پر ’تجارتی سرگرمیاں‘ سبز کچھوؤں کے لیے خطرہ
ہفتہ 26 فروری 2022 6:53
زین علی -اردو نیوز، کراچی
سندھ وائلڈ لائف نے سبز کچھوؤں کے لیے ایک جدید لیبارٹری بھی تعمیر کی۔ (فوٹو: روئٹرز)
پاکستان کے ساحلوں کا رُخ کرنے والے نایاب نسل کے سبز کچھوؤں کو موثر ماحول فراہم نہ کیا گیا تو زیتونی کچھوؤں کی طرح سبز کچھوے بھی پاکستان کے ساحل کا رُخ کرنا چھوڑ دیں گے۔
محکمہ وائلڈ لائف کے مطابق رواں سیزن میں اب تک 400 کے قریب مادہ ساحل پر آئیں ہیں بہتر ماحول نہ ہونے اور ساحل پر بڑھتی سرگرمیوں کے باعث صرف 150 سے 200 ہی مادہ انڈے دے سکی ہیں۔ باقی بنا انڈے دیے ہی سمندر میں لوٹ گئی ہیں۔ ساحلوں پر بڑھتی تجارتی و تفریحی سرگرمیاں اس آبی حیات کے لیے خطرہ ہیں۔
اشفاق میمن سندھ وائلڈ لائف سے وابستہ ہیں۔ وہ گذشتہ پانچ ماہ سے ان کچھوؤں کی دیکھ بھال کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سمندری سبز کچھوے کی نسل خطرات سے دوچار ہے۔
سمندری کچھوے سمندری ماحولیاتی نظام میں اہم کردار ادا کرتے آ رہے ہیں۔ گذشتہ دو صدیوں سے انسانوں کی سمندر میں بڑھتی تجارتی اور تفریحی سرگرمیوں سے ان کچھوؤں کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔
محکمہ وائلڈ لائف سندھ کے مطابق 80 کی دہائی سے اب تک آٹھ لاکھ 70 ہزار سے زائد کچھوؤں کے بچوں کو باحفاظت سمندر میں چھوڑا جاچکا ہے۔ رواں سیزن میں اب تک 13 ہزار انڈے ملے ہیں۔
سماجی کارکن عافیہ سلام کا کہنا ہے کہ سبز کچھوؤں کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ اگر ان کی دیکھ بھال نہیں کی گئی تو یہ بھی زیتونی کچھوؤں کی طرح پاکستان کے بجائے دیگر ساحلوں کا رُخ کرنے لگیں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ لوگوں کی گاڑیوں کے نیچے آتے ہیں۔ جانور مار دیتے ہیں۔ اتنا شور اور روشنی ساحل پر ہوتی ہے کہ یہ راستہ بھول جاتے ہیں۔ ’دنیا بھر میں جانوروں کے لیے خصوصی اقدامات کیے جاتے ہیں، لیکن ہمارے پاس ایسا نہیں ہے۔‘
ایک رائے یہ بھی پائی جاتی ہے کہ ان سبز کچھوؤں کی بقا کا تناسب 0.1 فیصد ہے۔ ایک ہزار کچھوؤں کے بچوں میں سے ایک کچھوا بچ پاتا ہے۔ لیکن اشفاق میمن اس سے اختلاف رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے حساب سے 100 بچوں میں سے 20 بچے ضرور بچ جاتے ہیں۔
بین الاقومی ماحولیاتی ادارے آئی یو سی این کی جانب سے سبز کچھوؤں کو ان ڈینجر سپیشیس میں رکھا گیا ہے۔ محکمہ وائلڈ لائف نے گذشتہ 40 سالوں سے ان کی حفاظت کا بیڑہ اٹھایا ہوا ہے۔ محدود وسائل کے باوجود کام کررہے ہیں۔
کراچی کے ساحلوں پر عموماً ستمبر سے کچھوے آنا شروع ہوتے ہیں اور یہ سلسلہ فروری کے آخری تک جاری رہتا ہے۔ غروب آفتاب کے ساتھ ہی یہ مادہ کچھوے ساحل کا رُخ کرنا شروع کرتے ہیں۔
کچھوؤں کی آمد سے قبل محکمہ وائلڈ لائف کے اہلکار ساحل پر موجود ہوتے ہیں اور جس مقام پر مادہ کچھوے نظر آتے ہیں ان مقامات پر نشان لگائے جاتے ہیں۔
مادہ کچھوے لہروں کی پہنچ سے دور گڑھا بنا کر انڈے دیتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ایک مادہ کچھوا 100 انڈے دیتی ہے۔ انڈے دینے کے بعد وہ اس گڑھے کو اچھی طرح سے ڈھانپتے ہیں اور واپس سمندر میں چلے جاتے ہیں۔
مادہ کچھوے کے واپس سمندر میں لوٹ جانے کے بعد وائلڈ لائف کے اہلکار احتیاط سے انڈے نکالتے ہیں اور انہیں سندھ وائلڈ لائف کی ہیٹ ری میں لے جاتے ہیں۔ جہاں انہیں واپس ریت میں دبا دیا جاتا ہے اور ہر گڑھے کا باقاعدہ ریکارڈ رکھا جاتا ہے۔
چالیس سے 60 دن میں انڈوں سے بچے نکلنا شروع ہوجاتے ہیں۔ ایک سے دو دن ان بچوں کی دیکھ بھال کی جاتی ہے اور پھر انہیں سمندری لہروں میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔
دنیا بھر میں سمندری کچھوؤں کی سات اقسام پائی جاتی ہیں۔ جن کو اولیو رڈلے، گرین، لوگر ہیڈ، لیدر بیک، فلیٹ بیک، ہاکس بل اور کیمپس رڈلے کے ناموں سے جانا جاتا ہے۔ ان سات نسلوں میں سے پانچ اقسام کے کچھوے پاکستان کے ساحلوں پر دیکھے گئے ہیں۔ سبز کچھوے پاکستان کے جنوبی صوبہ سندھ اور صوبہ بلوچستان کے ساحلوں پر بڑی تعداد میں آتے ہیں۔
یہ عام طور بحرہ اوقیانوس، بحر الکاہل اور بحر ہند کے گرم ساحلوں کے قریب پائے جاتے ہیں۔ ان کچھوں میں پائی جانے والی سبز چربی کی وجہ سے انہیں سبز کچھوے کہا جاتا ہے۔ جبکہ ایک تاثر یہ بھی ہے کہ ان کے سبز رنگ ہونے کی وجہ سے بھی انہیں سبز کچھوے کہا جاتا ہے۔
کراچی کے ساحل ہاکس بے اور سینڈس پٹ کا شمار دنیا کے ان 11 ساحلوں میں ہوتا ہے جہاں سبز کچھوؤں کی مادہ نسل کی افزائش کے لیے آتی ہیں۔ یہ نرم ریت کے ساحل ہیں یہاں یہ مادہ کچھوے آسانی سے اپنے انڈوں کو گہرائی تک چھپا سکتی ہیں۔
محکمہ جنگلی حیات کے مطابق سمندری کچھوؤں کا مزاج دیکھا گیا ہے کہ یہ کچھوے اگر ایک دفعہ انڈوں سے نکل کر سمندر میں چلے جائیں تو یہ واپس نہیں آتے ہیں۔ مادہ 10 سے 15 بار انڈے دینے کی صلاحیت رکھتی ہے اور صرف اسی وقت وہ اس ساحل کا رُخ کرتی ہے جہاں سے اس نے اپنی زندگی کا سفر کیا ہوتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق کچھوے کی عمر 70 سال کے قریب ہوتی ہے۔
اشفاق میمن کا کہنا ہے کہ کچھوؤں کے انڈوں سے نکلنے کی دلچسپ بات یہ ہے کہ جب ریت کا درجہ حرارت 27 ڈگری سیلسیس ہوگا تو مادہ کچھوے کی تولید ہوگی، جبکہ 27 ڈگری سیلسیس سے کم ہوگی تو نر کچھوا پیدا ہوگا۔
سبز کچھوؤں کی نسل کئی سالوں سے معدومیت کی جانب گامزن ہے۔ ساحلوں پر بڑھتی تجارتی سرگرمیوں کے باعث کچھوؤں کی انڈے دینے کی جگہ کم ہوتی جارہی ہے۔ ریت میں دبے انڈوں کو ساپنوں، کتوں سمیت دیگر جانوروں سے بچانا بھی ضروری ہے۔
انڈوں سے نکلنے اور سمندر تک سفر بھی ان ننھے کچھوؤں کے لیے آسان نہیں ہے۔ مچھلی کے شکار کے لیے استعمال ہونے والے جال بھی ان کچھوؤں کے لیے ایک بڑا خطرہ ہیں۔ کئی بار یہ ننھے کچھوے ان جالوں میں پھنس کر مر جاتے ہیں۔
سبز کچھوؤں کا شمار بڑے حجم والے سمندری کچھوؤں میں ہوتا ہے۔ ان سبزی خور سبز کچھوؤں کا وزن 90 کلوگرام سے زیادہ بھی ہو سکتا ہے۔
عافیہ سلام کا کہنا ہے کہ سمندر بلکل شہریوں کی تفریحی کے لیے ہے، لیکن مخصوص وقت اور مہینے میں خیال کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ واحد سبز کچھوے ہیں جو یہاں آرہے ہیں۔ یہ سمندروں کو صاف رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کا خیال نہیں کیا گیا تو یہ بھی راستہ بدل لیں گے۔ پولیس کی پیٹرولنگ ہونی چاہیے۔ بچپن سے آگاہی نہیں ہوتی جس کے منفی اثرات آرہے ہیں۔
سندھ وائلڈ لائف نے سبز کچھوؤں کے تحفّظ اور بقا کے لیے کثیر رقم سے ساحل پر ایک جدید لیبارٹری بھی تعمیر کی تھی، جس کا مقصد تحقیق کرنے والوں کی معاونت تھا۔ تاہم لیبارٹری میں ضروری آلات نصب کیے گئے، نہ ہی کوئی تکنیکی عملہ متعیّن کیا گیا۔
یاد رہے کہ پاکستان نے 2004 میں عمان میں کچھوؤں کے تحفّظ کے لیے ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس،’انڈین اوشین ساؤتھ ایسٹ ایشین ٹرٹل میمورنڈم‘ میں ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ اس معاہدے کے تحت رکن ممالک کو کچھوؤں کے تحفّظ کے لیے تمام ممکنہ اقدامات بروئے کار لانے کے علاوہ انہیں آلودگی سے لاحق خطرات سے بھی ہر صورت بچانا تھا، لیکن اس ضمن میں خاطرخواہ اقدامات نہیں کیے جارہے ہیں۔