Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’یقین نہیں آرہا کہ مچل سٹارک کو پنڈی میں کھیلتا دیکھ رہے ہیں‘

سٹیڈیم سے ملحقہ مری روڈ پہنچ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ آج پاکستان اور کرکٹ کے لیے کتنا اہم دن ہے (فوٹو: اے ایف پی)
آج سے ٹھیک 13 برس قبل 3 مارچ کے دن لاہور میں سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملے نے پاکستان پر کرکٹ کے دروازے بند کر دیے تھے۔ یوں تو پاکستان میں ٹیسٹ کرکٹ 2019 میں بحال ہو چکی تھی لیکن 24 برس بعد آسٹریلیا کے دورۂ پاکستان سے کرکٹ کے مداحوں میں یہ امید پیدا ہوئی ہے اب پاکستان میں ٹیسٹ کرکٹ مکمل طور پر بحال ہو جائے گی۔
پاکستانی شائقین، کرکٹ کے لیے آج کے غیرمعمولی دن آغاز بھی خوب تھا، گزشتہ روز اسلام آباد اور راولپنڈی بارش میں بھیگے ہوئے تھے لیکن آج دھوپ نکل چکی تھی اور موسم ایسا تھا جو کرکٹ کے لیے بہترین تصور کیا جاتا ہے۔
پنڈی سٹیڈیم میں میچ صبح 10 بجے شروع ہونا تھا لیکن 8 بجے سے ہی اسلام آباد ایکسرپس وے پر گاڑیوں کی لمبی قطاریں موجود تھیں اور سٹیڈیم تک جانے والا 20 منٹ کا راستہ تقریباً 40 منٹ میں طے کیا۔
آج صبح شہر کی ساری توجہ راولپنڈی اور اسلام آباد کے سنگم میں قائم پنڈی کرکٹ سٹیڈیم پر مرکوز تھی۔ 
سٹیڈیم سے ملحقہ مری روڈ پہنچ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ آج پاکستان اور کرکٹ کے لیے کتنا اہم دن ہے۔

نوجوانوں کی بڑی تعداد اس قطار میں کھڑی نظر آئی جو سٹیڈیم سے دو کلومیٹر دور تک پھیلی ہوئی تھی (فوٹو: اردو نیوز)

نوجوانوں کی بڑی تعداد اس قطار میں کھڑی نظر آئی جو سٹیڈیم سے دو کلومیٹر دور تک پھیلی ہوئی تھی۔ میچ سے ڈیڑھ گھنٹہ پہلے یوں لگ رہا تھا کہ میچ شروع ہونے تک سٹیڈیم تماشائیوں سے بھر جائے گا۔
خواتین بھی اس تاریخی میچ کو دیکھنے کے لیے بڑی تعداد میں سٹیڈیم کے باہر موجود تھیں۔ شائقین پاکستان اور آسٹریلیا کے قومی پرچم ہاتھوں میں تھامے آسٹریلوی کھلاڑیوں کو خوش آمدید کہہ رہے تھے اور شکریہ کے نعرے لگا رہے تھے۔  
متعدد غیرملکی کرکٹ شائقین بھی یہ میچ دیکھنے صبح سویرے ہی سٹیڈیم پہنچ گئے تھے۔
آسٹریلیا کے شہر سڈنی سے آیا ایک جوڑا شائقین کا جوش خروش دیکھ کر کہنے لگا کہ ’یہاں آکر محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کے لیے اس دورے کی کتنی اہمیت تھی اور ہمیں خوشی ہے کہ ہم نے پاکستانی شائقین کو انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کی طرح مایوس نہیں کیا۔‘

ایک تماشائی نے بتایا کہ وہ پارکنگ سے سٹیدیم ڈیڑھ گھنٹے پہنچ پائے ہیں (فوٹو: اردو نیوز)

آسٹریلیا کے شہر پرتھ سے بھی کرکٹ کے ایک مداح اس تاریخی سیریز کو دیکھنے کے لیے سٹیڈیم کے باہر موجود تھے اور انہوں نے روایتی گلگتی ٹوپی سر پر سجا رکھی تھی۔
پوچھنے پر پتا چلا کہ وہ اس سے پہلے بھی بطور سیاح پاکستان کے مختلف شہروں کا دورہ کر چکے ہیں اور یہ ٹوپی انہوں نے پشاور کے قصہ خوانی بازار سے خریدی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ وہ پاکستان میں آسٹریلیا کو نہیں بلکہ پاکستان کرکٹ ٹیم کو سپورٹ کرنے کے لیے آئے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان آسٹریلیا کو اس سیریز میں شکست دے۔ 
دونوں ٹیموں کے درمیان ٹاس کا وقت ہوا تو ہم نے بھی گراؤنڈ میں جانے کا ارادہ کیا کیونکہ اس تاریخی ٹیسٹ میچ کی پہلی گیند کے منظر کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا تھا۔

میچ کے آغاز کے وقت سٹیڈیم کے اندر کی نسبت کہیں زیادہ تماشائی باہر قطاروں میں موجود تھے (فوٹو: سکرین گریب)

میڈیا باکس کے گیٹ پر پہنچا تو ایک تماشائی نے بتایا کہ وہ پارکنگ سے سٹیدیم ڈیڑھ گھنٹے پہنچ پائے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ میچ کے آغاز کے وقت سٹیڈیم کے اندر کی نسبت کہیں زیادہ تماشائی باہر قطاروں میں موجود تھے۔
ان طویل قطاروں کی ایک وجہ غیرمعمولی ہجوم اور سات سے آٹھ جگہوں پر سیکیورٹی چیکنگ تھی لیکن ہر کوئی خوشی خوشی اس طویل مرحلے سے گزرنے کے لیے تیار تھا۔  
میچ کے پہلے سیشن کے اختتام پر سٹیڈیم سے باہر نکلا تو چند تماشائی گراؤنڈ سے باہر نکل رہے تھے اور پہلے سیشن کے کھیل پر تبصرے کر رہے تھے۔
 تاریخی میچ دیکھنے کا تجربہ کیسا رہا؟
یہ پوچھنے پر ایک تماشائی کا جواب تھا ’یقین نہیں آرہا کہ ہم مچل سٹارک کو پنڈی میں کھیلتا دیکھ رہے ہیں۔‘

شیئر: