Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

13 وکٹیں حاصل کرنے پر کس بولر کے ہوٹل کا بل معاف ہوا؟

پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان ٹیسٹ میچ کے دوران اچانک بیٹسمین وکٹوں پر بیٹھ جاتا ہے۔ بولر کی جانب سے اس حرکت کا جواب یکے بعد دیگرے دو باؤنسرز کی صورت میں آتا ہے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ بیٹسمین اپنے دستانوں کے ساتھ تالیاں بجا کر بولر کو مزید مشتعل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
یہ بیٹسمین آسٹریلیا کے ڈینس لِلی اور بولر  پاکستان کے عمران خان تھے۔ تیز مزاج ڈینس لِلی کا دوران میچ جارحانہ رویے کا یہ پہلا موقع نہیں تھا۔ دونوں ٹیموں نے اس کو نظر انداز کرکے کھیل جاری رکھا۔ اسی آسٹریلوی کھلاڑی کی وجہ سے آنے والے وقت میں وکٹوں کے درمیان بولر اور بیٹسمین کے درمیان مڈبھیڑ ہوتے ہوتے رہ گئی تھی۔
پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان 24 برسوں بعد پاکستانی سرزمین پر ٹیسٹ سیریز کا آغاز جمعے سے ہورہا ہے ۔اس سے قبل اکتوبر 2019 میں پاکستانی ٹیم کے دورہ آسٹریلیا کے دوران دونوں ملکوں نے ٹیسٹ سیریز کھیلی تھی۔
پاکستانی ٹیم اس سیریز کے تینوں میچ ہار گئی تھی۔ اس خراب کارکردگی پر سابق آسٹریلوی کپتان ای این چیپل کے تبصرے پر بہت لے دے ہوئی۔ انہوں نے پاکستان کو کمزور ٹیم قرار دیتے ہوئے یہاں تک کہا کہ ’اسے آئندہ آسٹریلیا میں کرکٹ کے لیے مدعو ہی نہ کیا جائے ۔
آسٹریلیا کے سابق کرکٹر کی ناگوار رائے کے درست یا غلط ہونے کا فیصلہ آنے والے میچوں میں پاکستان کی کارکردگی کرے گی، مگر دونوں ملکوں کی کرکٹ کی تاریخ متنازع معاملات اور دلچسپ واقعات سے عبارت ہے جن کا تذکرہ اور تفصیل جاری مقابلوں کے پرلطف لمحات کو مزید خوش گوار بناسکتا ہے۔
لِلی کی لات اور میاں داد کا جواب
 14 نومبر 1981 کو آسٹریلیا کے شہر پرتھ میں پاکستان اور آسٹریلیا کے ٹیسٹ میچ میں عمران خان اور سرفراز نواز کی شاندار بولنگ نے میزبان ٹیم کو 180 رنز پر ڈھیر کردیا، مگر جوابی اننگز میں پاکستان اپنی تاریخ کے کم ترین سکور 62 پر آؤٹ ہوگیا۔
دوسری اننگز میں حریف نے سکور کا پہاڑ کھڑا کر کے پاکستان کو جیت کے لیے 543 رنز کا بڑا ہدف دے دیا۔جاوید میاں داد اور منصور اختر تیسری وکٹ کی شراکت میں بیٹنگ کررہے تھے۔

جاوید میاں داد اور ڈینس لِلی کی لڑائی کرکٹ کی تاریخ کا ایک اہم واقعہ ہے (فائل فوٹو: گیٹی امیجز)

جاوید میانداد نے سکوائر لیگ امپائر کی جانب گیند کھیل کر رنز کے لیے دوڑنا شروع کیا۔پچ کے درمیان ان کا آسٹریلوی بولر ڈینس لِلی سے تصادم ہوگیا جس سے ایک تنازع پھوٹ پڑا۔
جاوید میانداد نے اپنے راستے میں آنے والے آسٹریلوی کھلاڑی کو پرے دھکیل کر اپنا رن پورا کیا۔ ڈینس للی نے پلٹ کر میاں داد کے پیڈ پر لات دے ماری۔
جاوید میانداد جواب میں بلا لہراتے ہوئے آسٹریلوی بولر کی جانب لپکے۔ قریب تھا کہ دونوں میں تصادم مزید بڑھ جاتا۔میچ کے امپائر ٹونی کرافٹر اور آسٹریلیا کے کپتان گریک چیپل دونوں کے درمیان آ گئے اور انہیں دست وگریباں ہونے سے روک دیا۔
پاکستان کے سابق کپتان جاوید میانداد اپنی آٹو بائیو گرافی ’کٹنگ ایج‘ میں لکھتے ہیں کہ ان کا مقصد ڈینس لِلی کو دھمکا کر اپنے اوپر حملہ کرنے سے روکنا تھا۔ ان کے مطابق اس واقعے سے قبل برسبین میں ایک سائیڈ میچ کے دوران دونوں میں بدمزگی کے بعد ناخوش گوار جملوں کا تبادلہ ہوا تھا۔

جاوید میانداد اپنی آٹو بائیو گرافی ’کٹنگ ایج‘ میں لکھتے ہیں کہ ان کا مقصد ڈینس لِلی کو دھمکا کر حملہ کرنے سے روکنا تھا (فائل فوٹو: ایمیزون)

آسٹریلیا کے پریس نے معاملے کو خوب اُچھالا۔پاکستانی ٹیم کے مینیجر اعجاز بٹ نے آسٹریلوی کرکٹ بورڈ سے تحریری شکایت میں کارروائی کا مطالبہ کیا۔ امپائر نے لِلی کے رویے کو غلط قرار دیا، تاہم پاکستانی مینیجر سے میاں داد کے جارحانہ طرز عمل کی رپورٹ بھی طلب کی۔
آسٹریلوی کپتان نے اپنے کھلاڑی کی حمایت میں بیان دیا۔انہوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ پاکستانی ٹیم لِلی کو متنازع واقعے میں ملوث کر کے آنے والے میچوں میں حصہ لینے پر پابندی لگوانا چاہتی ہے۔
آسٹریلوی کرکٹ بورڈ کے ضابطہ اخلاق کے مطابق ابتدائی طور پر ٹیم کے کھلاڑیوں نے معاملے کی تحقیق کرکے ڈینس لِلی پر 200 آسٹریلوی ڈالرز کا جرمانہ کیا۔
آسٹریلوی کرکٹ بورڈ کے چیئرمین فل رائزنگ نے واقعے کی چھان بین کے بعد اپنے کھلاڑی کے بارے میں حتمی فیصلہ کرنے کا عندیہ دیا۔
لِلی اس پر بھڑک اُٹھے اور انہوں نے معطلی کی صورت میں کرکٹ چھوڑنے کی دھمکی دے ڈالی۔ یوں لگ رہا تھا کہ پاکستانی مینیجر کی جانب سے بقیہ میچوں میں اس پر پابندی کا مطالبہ مان لیا جائے گا۔
اگلے روز ڈینس لِلی پاکستانی ڈریسنگ رُوم میں پہنچ گئے۔انہوں نے پاکستانی کھلاڑیوں سے اس واقعے پر معافی مانگ لی۔ اگرچہ جاوید میاں داد کو ان کے معافی مانگنے کے انداز پر بھی اعتراض تھا مگر پاکستانی ٹیم کی انتظامیہ نے معاملے کو ختم کرنے میں عافیت جانی۔

کراچی ٹیسٹ کے دوران امریکی صدر نے پاکستانی ٹیم کے رنگ کا کوٹ پہن رکھا تھا (فائل فوٹو: پی سی بی)

امریکی صدر کے کوٹ پر پاکستان کرکٹ کا نشان
سنہ 1959 میں آسٹریلیا کی کرکٹ ٹیم کے دورہ پاکستان کے دوران کراچی میں ٹیسٹ میچ کھیلا گیا۔ ان دنوں امریکی صدر آئزن ہاور پاکستان کے دورے پر تھے۔انہوں نے صدر پاکستان ایوب خان کے ساتھ میچ کے چوتھے دن کا کھیل دیکھنے کا پروگرام بنایا۔
امریکی اور پاکستانی صدور سٹیڈیم آمد پر دونوں ٹیموں کے کھلاڑیوں سے مل رہے تھے۔ جب انہوں نے آسٹریلوی کپتان رچی بینو سے ہاتھ ملایا تو آگے سے انہوں نے خوش گوار لہجے میں کہا۔
جناب صدر آپ تو دوسری ٹیم کا حصہ بن گئے ہیں۔
امریکی صدر نے بے ساختہ جواب دیا۔
ہاں ایسا ہی ہے میں نے ان کے نشان والا کوٹ جو پہن رکھا ہے۔
امریکی صدر کے پاکستانی نشان والے کوٹ پہننے کی تفصیل سابق پاکستانی کپتان فضل محمود اپنی آٹو بائیو گرافی ’فرام ڈیسک ٹو ڈان‘ میں بیان کرتے ہیں۔
وہ لکھتے ہیں کہ جب ہمیں امریکی صدر کے میچ دیکھنے کے بارے میں علم ہوا تو میں نے اور کرکٹ بورڈ کے سیکریٹری نے فیصلہ کیا کہ ان کا شاندار استقبال ہونا چاہیے۔

آسٹریلیا کے خلاف میچ میں 13 وکٹیں حاصل کرنے پر فضل محمود کے ہوٹل کا بل معاف کردیا گیا (فائل فوٹو: آئی سی سی ٹوئٹر)

اس مقصد کے لیے ہم نے واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے سے رابطہ کرکے امریکی صدر کے درزی کا سلا ہوا سبز رنگ کا کوٹ پہلی دستیاب فلائٹ میں بھیجنے کی استدعا کی۔کوٹ پہنچ گیا تو اس پر پاکستانی کرکٹ کا نشان بھی بنوا دیا گیا۔
فضل محمود کے مطابق امریکی صدر سے ملتے ہوئے انہوں نے وہ کوٹ پہننے کے لیے پیش کیا۔ آئزن ہاور نے مسرت کے عالم میں ایوب خان سے کہا۔
فیلڈ مارشل یہ میرے ناپ کا ہے۔
13   وکٹیں حاصل کرنے پر ہوٹل کا بل معاف
سنہ 1956 میں آسٹریلوی ٹیم اپنے دورہ انگلینڈ سے واپسی پر ایک ٹیسٹ کے لیے کراچی میں رُکی۔ یہ ٹیسٹ پاکستان نے باآسانی جیت لیا۔کھیل کے پہلے روز آسٹریلیا کی پوری ٹیم اور پاکستان کے دو کھلاڑی آؤٹ ہوئے۔یوں ایک دن میں 12 وکٹیں گرنے کا ریکارڈ بھی بن گیا۔
فضل محمود نے اس میچ میں 13 وکٹیں حاصل کیں۔ پہلے ہی روز آسٹریلیا کے 80 رنز پر آؤٹ ہونے سے ان کے ہوٹل کا ایک ماہ کا بل بھی معاف ہوگیا۔
اس دلچسپ واقعے کی تفصیل فضل محمود نے اپنی کتاب میں بیان کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میچ سے قبل میں مری چلا گیا جہاں ایک مقامی ہوٹل میں میرا قیام تھا۔میرا معمول روزانہ ورزش اور ہائیکنگ کے لیے باہر پہاڑ کی چوٹی پر جانا ہوتا تھا۔

سنہ 1959 کے دورے کے دوران نوجوان انتخاب عالم نے اپنے کیریئر کی پہلی ہی گیند پر وکٹ حاصل کر کے تاریخ رقم کردی (فائل فوٹو: گیٹی امیجز)

ہوٹل کا مالک بڑی دلچسپی سے میری مصروفیات دیکھتا رہتا۔ آخر ایک روز اس نے میری غیر معمولی تیاری کی وجہ پوچھی۔ میرا جواب تھا کہ ہم نے آسٹریلیا کو 100 سے کم رنز پر آؤٹ کرنا ہے۔
فضل محمود کہتے ہیں کہ ہوٹل کے مالک نے میری خواہش کو ناممکن قرار دیا۔ساتھ ہی انہیں یہ پیش کش بھی کردی کہ اگر ایسا ہوگیا تو وہ ہوٹل کے پورے ماہ کے بل سے دستبردار ہو جائے گا، تاہم اگر پاکستانی ٹیم آسٹریلیا کو 100 کم رنز پر آؤٹ نہ کرسکی تو فضل محمود سے دُگنا بل وصول کیا جائے گا۔
آسٹریلیا کے 80 رنز پر آؤٹ ہونے کے بعد فضل محمود کو ہوٹل کے مالک کا ٹیلیگرام موصول ہوا جو صرف تین الفاظ پر مشتمل تھا۔
چھوڑ دیتا ہوں۔
آخری منٹوں میں جیت
آسٹریلیا کے 1959 کے دورہ پاکستان کے دوران نو تعمیر شدہ قذافی سٹیڈیم میں دوسرا ٹیسٹ میچ کھیلا گیا۔ آخری روز آسٹریلیا کو جیت کے لیے پاکستانی ٹیم کے ساتھ ساتھ ختم ہوتے وقت سے بھی مقابلہ درپیش تھا۔ فضل محمود کے زخمی ہونے کی وجہ سے امتیاز احمد کپتان تھے۔

سنہ 1959 کی سیریز کے میچ کے آخری روز آسٹریلیا نے پاکستان کی آخری وکٹ حاصل کر کے بظاہر ناقابل یقین فتح سمیٹ لی (فائل فوٹو: گیٹی امیجز)

میچ کے آخری روز سعید اور شجاع کی یادگار شراکت سے لگتا تھا کہ نتیجہ ڈرا کے سوا کچھ اور نہیں ہوگا مگر آسٹریلوی بولر کلائن کی تباہ کن بولنگ نے میچ کا نقشہ بدل دیا۔
آخری لمحات میں مقابلہ اور سنسنی خیز ہوگیا، جب کھیل ختم ہونے میں چند منٹ باقی تھے اور پاکستان کے نو کھلاڑی آؤٹ ہوچکے تھے تو آخری منٹوں میں آسٹریلیا نے پاکستان کی آخری وکٹ حاصل کر کے بظاہر ناقابل یقین فتح سمیٹ لی۔
انتخاب عالم کی پہلی وکٹ
اسی دورے میں آسٹریلیا کو ڈھاکہ اور لاہور ٹیسٹ جیتنے کی وجہ سے آخری میچ میں نفسیاتی برتری حاصل ہو گئی۔ پاکستان نے کلین سویپ سے بچنے کے لیے 17 برس کے ایک نوآموز نوجوان کو موقع دینے کا فیصلہ کیا جس نے اپنے کیریئر کی پہلی ہی گیند پر وکٹ حاصل کر کے تاریخ رقم کردی۔
یہ انتخاب عالم کا پہلا میچ تھا۔انہوں نے آسٹریلوی بلے باز میکڈونلڈ کو پہلی ہی بال پر کلین بولڈ کردیا۔اگلی اننگز میں حنیف محمد کی سینچری نے پاکستان کو کلین سویپ ہونے سے بچا لیا۔یہ ٹیسٹ ہار جیت کے فیصلے کے بغیر ختم ہوا تھا۔
پریکٹس کروانے والا قومی ٹیم میں کیسے شامل ہوا؟
پاکستان 1979 میں آسٹریلیا کا دورہ کرنے والا تھا۔ روانگی سے قبل کراچی میں ٹیم کی تیاری کا کیمپ لگایا گیا۔ جہاں مقامی شوقیہ کرکٹرز کھلاڑیوں کو پریکٹس کے لیے بولنگ کروانے آتے تھے۔ ایک روز کپتان جاوید میانداد کو ان کے ایک دوست ریاض ملک نے ایک نوجوان کو بولنگ کے لیے بھیجنے کا کہا۔
فیصل کالونی کا رہائشی اس غریب نوجوان نے بولنگ کروائی تو دیکھنے والوں کو اس کی غیر معمولی صلاحیتوں اور انداز نے متاثر کیا۔ جاوید میاں داد نے اسے قومی ٹیم کا حصہ بناکر آسٹریلیا لے جانے کا فیصلہ کرلیا۔
یہ غیر متوقع پیش کش اسے یکدم اس خدشے کے پیش نظر نہیں کی گئی کہ کہیں وہ مذاق سمجھ کر کیمپ میں آنا ہی نہ چھوڑ دے۔ یہ سپین بولر توصیف احمد کے کرکٹ کیریئر کی شروعات کا باعث بنا۔
ظہیر عباس کی گمشدگی
سنہ 1981 کے دورہ آسٹریلیا میں جاوید میاں داد کی کپتانی پر سینیئر کھلاڑیوں کے تحفظات بڑھتے بڑھتے بغاوت کی شکل اختیار کر گئے۔ ماجد خان، ظہیر عباس اور دوسرے سینیئر کھلاڑیوں نے میاں داد کی قیادت میں کھیلنے سے انکار کردیا۔
آسٹریلیا میں ایک سائیڈ میچ کا کھیل بارش کی وجہ سے تاخیر سے شروع ہوا۔ پاکستان کے دو کھلاڑی آؤٹ ہوئے تو ظہیر عباس کی بیٹنگ کی باری آئی۔ انہیں تلاش کیا گیا تو سٹیڈیم میں کہیں نہ ملے۔ کپتان میاں داد انہیں ڈھونڈتے ڈھونڈتے ہوٹل جا پہنچے۔ ظہیر عباس اپنے کمرے میں موجود تھے اور جاوید میاں داد کے استفسار پر انہوں نے ان کی قیادت میں کھیلنے سے انکار کردیا۔
جاوید میاں داد پر عدم اعتماد کے بعد قیادت عمران خان کے ہاتھ آئی۔ ان کی کپتانی میں 1982 میں پاکستان نے آسٹریلیا کو کلین سویپ کیا۔
حالیہ دنوں میں پی ایس ایل کی فاتح لاہور قلندر کے شاہین شاہ آفریدی کے لیے پاکستان کا گذشتہ دورہ آسٹریلیا اچھا ثابت نہ ہوا تھا۔ وہ قابل ذکر کارکردگی نہ دکھا سکے تھے۔ اب جبکہ وہ پی ایس ایل کی فاتح ٹیم کے فاتح کپتان بھی ہیں ان سے توقعات میں اضافہ ہوگیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ شاہین شاہ آفریدی ایئن چیپل کی بات کو کیسے غلط ثابت کرتے ہیں کہ پاکستان ایک کمزور ٹیم ہے۔

شیئر: