Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حکومت نے کب کب جنوبی پنجاب صوبے کا بل پیش کرنے کا اعلان کیا؟

جنوبی پنجاب کے الگ صوبہ بن جانے کی صورت میں پنجاب کے پاس قومی اسمبلی کی 95 نشستں بچیں گی (فوٹو اے ایف پی)
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے ایک بار پھر جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ جلد اس سلسلے میں بل قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔
انھوں نے عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم دیکھیں گے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن اس کی حمایت کرتے ہیں جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کے راستے میں رکاوٹ بنتے ہیں۔‘
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ حکمران جماعت کی طرف سے جنوبی پنجاب صوبہ بنانے اور اس سلسلے میں قانون سازی کا اعلان کیا گیا ہے۔ بلکہ موجودہ حکومت کی تشکیل سے پہلے بھی وزیر اعظم، وفاقی وزراء اور صوبائی حکومت اس حوالے سے متعدد بار اعلانات کر چکی ہے۔
جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کے حوالے سے قانونی اعتبار سے ابھی تک بظاہر کوئی بڑی پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی، تاہم تین سال کی تگ و دو کے بعد پنجاب حکومت نے جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ قائم کرکے عوام کے مسائل حل کرنے کے حوالے سے پہلا قدم ضرور اٹھایا ہے۔
جنوبی پنجاب کا صوبہ پاکستان تحریک انصاف کے منشور کا کبھی بھی حصہ نہیں رہا۔ 2018 کے انتخابات سے قبل جب بلخ شیر مزاری اور خسرو بختیار نے جنوبی پنجاب صوبہ محاذ بنایا تو محض ایک مہینے بعد یہ محاذ تحریک انصاف میں ضم کرتے ہوئے حکومت کے قیام کے 100 روز کے اندر جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کا اعلان کیا گیا۔
یہ پہلا موقع تھا جب جنوبی پنجاب صوبے کا قیام پاکستان تحریک انصاف کے منشور کا حصہ بنایا گیا۔
حکومت کے 100 دن گزرنے کے بعد حکومت اور جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے ارکان کی جانب سے جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کے حوالے سے آئینی اقدامات کے حوالے سے کوئی پیش رفت تو دیکھنے کو نہ ملی، تاہم جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ اور بہاولپور صوبہ اور جنوبی پنجاب صوبہ کے حوالے سے اختلافات ہی سامنے آئے۔
جنوری 2019 میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کے حوالے سے متحرک ہوئے تو حکومتی اتحادی طارق بشیر چیمہ نے بہاولپور صوبے کے مطالبے سے پیچھے نہ ہٹنے کا اعلان کرکے ان کا راستہ روک دیا اور بات آگے نہ بڑھ سکی۔
انھی دنوں مسلم لیگ ن نے پنجاب میں دو مزید صوبوں کے قیام کا بل ایوان میں پیش کر دیا جسے قائمہ کمیٹی کو بھیج دیا گیا اور اس کے بعد کبھی سامنے نہیں آیا۔
شاہ محمود قریشی نے ن لیگ کے اس بل کو جنوبی پنجاب کے عوام کو آپس میں تقسیم کرنے کی سازش قرار دیا۔

شاہ محمود قریشی نے جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کے حوالے تیسری بڑی مہم شروع کی (فوٹو اے پی ی)

اس کے بعد حکومت اور اپوزیشن دونوں نے پورا سال چپ سادھ لی۔ 11 مارچ 2020 کو شاہ محمود قریشی ایک بار پھر سرگرم ہوئے اور جنوبی پنجاب صوبے کا بل قومی اسمبلی میں پیش کرنے کا اعلان کر دیا۔
اسلام آباد وزیراعظم کی سربراہی میں اہم اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ’وزیر اعظم نے فیصلہ کیا ہے کہ جنوبی پنجاب صوبے کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے قومی اسمبلی میں بل پیش کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں دیگر سیاسی جماعتوں سے بھی مشاورت کی جائے گی اور ان کی بھی تائید حاصل کی جائے گی۔‘
جنوری 2022 میں مسلم لیگ ن کے سینیٹر رانا محمود الحسن نے اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے جنوبی پنجاب صوبے کا بل سینیٹر میں پیش کر دیا۔
جس کے بعد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کے حوالے تیسری بڑی مہم شروع کی۔ اب کی بار انھوں نے قائد حزب اختلاف شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری کو خطوط لکھے اور ان سے مدد مانگ لی۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کے لیے آئینی ترمیم لانے کے لیے دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہے جوکہ حکومت کے پاس نہیں ہے۔ اپوزیشن جماعتیں تعاون کریں تو اس سلسلے میں قانون سازی کی جا سکتی ہے۔
اپوزیشن کی جانب سے شاہ محمود قریشی کے خطوط کا جواب نہیں دیا تاہم مسلم لیگ (ن) نے اسے سیاسی شعبدہ اور غیر سنجیدہ اقدام قرار دیتے ہوئے کچھ ہی دیر میں مسترد کر دیا تھا۔
وزیر اعظم نے اتوار کے روز میلسی میں جلسہ عام سے خطاب میں جب جنوبی پنجاب صوبہ کے حوالے سے بل اسمبلی میں لانے کا اعلان کرکے ایک مرتبہ پھر اس بحث کو زندہ کر دیا ہے۔
پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 239 کی شق نمبر چار کے مطابق پاکستان کے کسی صوبے کی حدود میں ردو بدل، اُس صوبے کی صوبائی اسمبلی کی کم از کم دو تہائی اکثریت کی منظوری کے بعد ہی ممکن ہے۔ صوبائی اسمبلی قرار داد کے بعد ہی آئین میں ترمیم کا بل قومی اسمبلی میں پیش کیا جا سکتا ہے۔ جس کے لیے جس کی خاطر قومی اسمبلی اور سینیٹ میں الگ الگ دو تہائی اکثریت درکار ہے۔

جنوبی پنجاب اسمبلی کی کل سیٹیں 120 ہوں گی جس میں 95 منتخب ممبران کی ہوں گی (فوٹو اے پی پی)

ملتان، بہاولپور اور ڈیرہ غازی خان پر مشتمل صوبہ کے قیام عمل میں لانے کے لیے تجاویز تیار کی گئی ہیں۔ مجوذہ صوبہ جنوبی پنجاب کے لیے تینوں ڈویژنز کے گیارہ اضلاع بنتے ہیں جو پنجاب کے تیس فیصد کے لگ بھگ ہے۔
ملتان کے چار اضلاع (ملتان، خانیوال، لودھراں، وہاڑی)، بہاولپور کے تین اضلاع (بہاولپور، بہاول نگر، رحیم یارخان) جبکہ ڈیرہ غازی خان ڈویژن کے چار اضلاع (ڈیرہ غازی خان، راجن پور، مظفر گڑھ ، لیہ) ہیں۔
جنوبی پنجاب اسمبلی کی کل سیٹیں 120 ہوں گی جس میں 95 منتخب ممبران کی ہوں گی، اس طرح اپر پنجاب کی سیٹیں 251 رہ جائیں گی۔
ان تینوں ڈویژنز کو 2018ء کے انتخابات میں قومی اسمبلی کی چھیالیس نشستیں ملی تھیں۔ اس وقت پنجاب کے پاس قومی اسمبلی کی کل272 نشستوں میں سے 141 نشستیں (51.88%) ہیں۔
 جنوبی پنجاب کے الگ صوبہ بن جانے کی صورت میں پنجاب کے پاس قومی اسمبلی کی 95 نشستں بچیں گی جو قومی اسمبلی کل تعداد کا35 فیصد بنتی ہیں۔
اسی طرح یہ بھی تجویز دی گئی ہے کہ جنوبی پنجاب کی علیحدہ ہائی کورٹ ہوگی اور اپنا چیف جسٹس ہوگا۔

شیئر: