Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد، عمران خان کا جوابی وار کیا ہو سکتا ہے؟

سنہ 2018 کے انتخابات کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی حکومت بنی تو عمران خان کو وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد ایوان میں پہلا خطاب کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، جس سے یہ اندازہ ہوا کہ وزارت عظمیٰ عمران خان کے لیے پھولوں کی سیج نہیں ہوگی۔  
عمران خان نے اس کا حل ایک تو یہ نکالا کہ وہ قومی اسمبلی میں جاتے ہی بہت کم تھے اور دوسرا اپوزیشن رہنما احتسابی عمل میں اس قدر الجھے رہے کہ انہیں عمران خان کو ٹف ٹائم دینے کے بجائے خود جیلوں میں کئی کئی ماہ گزارنا پڑے۔ 
عمران خان کو درپیش سیاسی چیلنجز کیا ہیں؟  
تاہم کم وبیش ساڑھے تین سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد ملکی معیشت اور مہنگائی کی صورت حال کے پیش نظر اپوزیشن کو متحرک ہوئی اور اس نے پہلی بار عمران خان کو اقتدار سے باہر کرنے کے لیے عملی قدم اٹھاتے ہوئے قومی اسمبلی میں ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرا دی ہے۔ اس کے باعث عمران خان کو بحیثیت وزیراعظم پہلی بار اپوزیشن کی جانب سب سے بڑے امتحان کا سامنا ہے۔
اگر تو صرف اپوزیشن کی بات ہوتی تو عمران خان ’این آر او نہیں دوں گا‘ کہہ کر ڈٹ جاتے، لیکن اب صورت حال مختلف ہے۔ صرف اپوزیشن ہی نہیں عمران خان کی اپنی جماعت کے ناراض ارکان اپنے ہی وزیراعلیٰ پنجاب کے خلاف صف آرا ہیں اور اتحادی جماعت مسلم لیگ ق کی جانب سے چیلنجز بھی سامنے آ گئے ہیں اور ان کی مشکلات مزید بڑھ گئی ہیں۔  
اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کے لیے عمران خان کے پاس اگرچہ نمبر گیم بظاہر پورے ہیں، لیکن ان کے اتحادی چوہدری برادران نے بھی موجودہ صورت حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پنجاب کی وزارت اعلیٰ پر نظریں جما لی ہیں اور اس سلسلے میں لابنگ بھی شروع کر دی ہے۔  
عمران خان اگر وفاق میں چودھری برداران کی حمایت برقرار رکھنے کے لیے پنجاب میں انھیں وزارت اعلیٰ دینے کی حامی بھرتے ہیں تو انہیں عثمان بزدار کی قربانی دینا پڑے گی۔ لیکن یہ صورت حال بھی آئیڈیل نہیں ہے، کیونکہ عمران خان کے قریبی ساتھی جہانگیر ترین اور علیم خان کے اتحاد نے تحریک انصاف کے اتحاد میں دراڑیں ڈال دی ہیں۔  
جہانگیر ترین اور علیم خان کے گٹھ جوڑ نے اگرچہ عثمان بزدار پر عدم اعتماد کا اظہار کر دیا ہے، لیکن وہ پرویز الٰہی کو بھی قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔  
کیا عمران خان اپوزیشن کو سرپرائز دے سکتے ہیں؟ 
یہ صورت حال عمران خان کو پہلی دفعہ درپیش آئی ہے کہ انہیں اپنا اقتدار بچانے کے لیے بیک وقت کئی محاذوں پر لڑنا پڑ رہا ہے۔ اس صورت حال میں وہ کیا کر سکتے ہیں اور کیا وہ اب بھی اپوزیشن کو سرپرائز دینے کی پوزیشن میں ہیں؟  
اس حوالے سے تجزیہ کار رسول بخش رئیس نے اردو نیوز کے ساتھ گفتگو میں کہا کہ ’اس وقت لگ نہیں رہا کہ عمران خان اپوزیشن کو سرپرائز دینے کے قابل رہے ہیں۔ عمران خان کے اقتدار میں رہنے کا ایک ہی طریقہ ہے بچ گیا ہے کہ وہ جہانگیر ترین اور علیم خان گروپ کو اپنے ساتھ رکھیں۔
کیونکہ نہ صرف پنجاب بلکہ وفاق میں بھی اب یہ واضح ہو رہا ہے کہ تحریک انصاف کے اپنے ارکان اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کا ساتھ دیں گے۔‘  

طلعت حسین کے مطابق عمران خان اپنے اتحادیوں اور اپنے ارکان کو راضی کریں اور انہیں اپنے ساتھ رکھیں (فوٹو جے یو آئی ایف)

عمران خان کے پاس آپشنز کیا ہیں؟  
عمران خان نے بحیثیت اپوزیشن رہنما مسلم لیگ ن کی حکومت بالخصوص وزیر اعظم نواز شریف کو مسلسل دباو میں رکھا تھا، لیکن وہ اس کے باوجود ان کا استعفیٰ لینے میں کامیاب نہیں ہو سکے تھے تو کیا اب اپوزیشن انہیں استعفیٰ لینے پر مجبور کر سکتی ہے؟  
صحافی و تجزیہ کار طلعت حسین نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’وزیراعظم کے پاس موجودہ صورت حال سے نکلنے کا سادہ راستہ یہ ہے کہ اپنے اتحادیوں اور اپنے ارکان کو راضی کریں اور انہیں اپنے ساتھ رکھیں۔ لیکن علیم خان کی پریس کانفرنس کے بعد یہ راستہ سادہ اور آسان نہیں رہا کیونکہ علیم خان نے عملی طور پر کشتیاں جلا دی ہیں۔‘  
ان کے مطابق ’دوسرا راستہ یہ ہے کہ عمران خان اپنے اتحادیوں چوہدری برادران کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے دے کر عثمان بزدار کی قربانی دے دیں، لیکن اس کے لیے بھی انہیں جہانگیر ترین گروپ کی حمایت حاصل کرنا ہوگی اور اس کے ساتھ ساتھ وفاق میں ایم کیو ایم کو بھی سنبھال کر رکھنا ہوگا۔‘  
طلعت حسین کے مطابق ’یہ تمام اقدامات اٹھا لینے کے باوجود فلور کراسنگ کے امکانات موجود ہیں۔‘  
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’عمران خان اتنی مشکل صورت حال کے باوجود استعفیٰ نہیں دیں گے بلکہ تحریک عدم اعتماد کا سامنا کریں گے چاہے اس کا نتیجہ کچھ بھی نکلے۔‘  
عمران خان نے نواز حکومت کو کیسے دباو میں رکھا تھا؟  
14 اگست 2014 کو لاہور سے آزادی مارچ شروع کیا تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ اسلام آباد پہنچ کر پاکستان کی تاریخ کا طویل ترین دھرنا دے کر دو تہائی اکثریت رکھنے والی حکومت کو عملی طور پر جام کرکے رکھ دیں گے۔  

پانامہ لیکس سامنے آئیں تو عمران خان نے اس کو موقع غنیمت جانا (فوٹو اے ایف پی)

126 کے دن کے دھرنے کے نتیجے میں اسلام آباد کا ریڈ زون جزوی طور پر بند اور کاروبار حکومت بمشکل چلتا رہا اور اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف روزانہ کی بنیاد پر ملنے والی ڈیڈ لائنز کے باوجود مستعفی نہ ہوئے اور دھرنا وزیر اعظم کے استعفیٰ لیے بغیر ہی ختم کرنا پڑا۔ یہ کسی بھی اپوزیشن کی جانب سے کسی وزیر اعظم کے خلاف سب سے بڑا دباو تھا جسے نواز شریف برداشت کرنے میں کامیاب رہے۔ 
پانامہ لیکس سامنے آئیں تو عمران خان نے اس کو موقع غنیمت جانا اور نواز شریف کو دوبارہ دباو میں لے آئے اور عدالت کے ذریعے انھیں اقتدار سے باہر کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اس دوران بھی نواز شریف پر مستعفی ہونے کے لیے دباو ڈالا جاتا رہا، لیکن انھوں نے مستعفی ہونے سے انکار کر دیا تھا۔ 
تاہم عمران خان کے دھرنے اور پانامہ لیکس کے حوالے سے تحریک نے پاکستان تحریک انصاف کو ہمہ وقت میڈیا میں موجود رکھا اور 2018 کے انتخابات کے لیے عوامی رائے ہموار کرنے میں مدد ملی۔ 
اب اگرچہ عمران خان اور ان کی جماعت عدم اعتماد کو عالمی سازش قرار دے کر بظاہر اپوزیشن کو شکست دینے کا دعویٰ کر رہے ہیں، لیکن عوام کی نظریں اس سیاسی صورت حال کے حتمی نتیجے پر مرکوز ہیں کہ کون کس کو پچھاڑنے میں کامیاب ہوتا ہے۔ 

شیئر: