عمران خان عثمان بزدار کو وسیم اکرم بھی قرار دے چکے ہیں (فوٹو اے پی پی)
پاکستان میں حزب اختلاف کی جماعتوں نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد جمع کرادی ہے۔ وزیراعظم کو اس بار نہ صرف اپنے خلاف تحریک کو ناکام بنانے کا چیلنج درپیش ہے بلکہ سب سے بڑے صوبے پنجاب کے وزیراعلی عثمان بزدار کی کرسی بھی خطرے میں ہے۔
وزیراعلٰی پنجاب عثمان بزدار کے خلاف نہ صرف حزب اختلاف بلکہ اپنی جماعت کے ارکان بھی صف بندی کررہے ہیں اور پیر کے روز پنجاب کے سابق وزیر اور تحریک انصاف کے سینیئر رہنما علیم خان نے جہانگیر ترین کے گروپ میں شمولیت اختیار کر کے تخت لاہور کے خلاف طبل جنگ بجا دیا ہے۔
سیاسی تجزیہ کار عبدالعلیم خان کی جہانگیر ترین گروپ میں شمولیت کو پنجاب میں وزارت اعلٰی کو تبدیل کرنے کی حکمت عملی کا حصہ قرار دے رہے ہیں۔
دوسری جانب تحریک انصاف بھی پنجاب میں اپنی سیاسی حکمت عملی مرتب کررہی ہے اور اس حوالے سے حکومت نے جہانگیر ترین گروپ سے رابطے شروع کردیے ہیں جبکہ پنجاب کے وزارت اعلٰی کے امیدوار بھی بڑھ چکے ہیں۔
ایک طرف عبدالعلیم خان خود وزارت اعلٰی کی حصول کے لیے کوشاں ہیں، جبکہ سپیکر پنجاب اسمبلی اور سابق وزیراعلٰی چوہدری پرویز الہی بھی وزیر اعلٰی کے عہدے کے مضبوط امیداور ہیں۔
اگرچہ وزارت اعلی کی تبدیلی کا فیصلہ وزیراعظم عمران خان نے ہی کرنا ہے، لیکن سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق وزیراعظم عمران خان کو اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام بنانے کے لیے سردار عثمان بزدار کی قربانی دینا پڑسکتی ہے۔
تخت لاہور کی جنگ
سنہ 2018 کے عام انتخابات میں تحریک انصاف نے وفاق میں اکثریت حاصل کرنے کے بعد آزاد امیدواروں کی شمولیت سے پنجاب میں بھی اکثریت حاصل کرلی تھی۔ پی ٹی آئی کی سب سے بڑے صوبے میں اکثریت حاصل کرنے کے بعد وزارت اعلی کے عہدے کے لیے نصف درجن سے زائد مضبوط امیدوار سامنے آئے تھے۔
انتخابات سے قبل شاہ محمود قریشی، فواد چوہدری اور عبدالعلیم خان کا نام بھی وزارت اعلٰی کے لیے زیرگردش رہا، تاہم شاہ محمود قریشی صوبائی نشست پر شکست کے بعد اس دوڑ سے باہر ہو گئے تھے۔ انتخابات کے بعد عبدالعلیم خان کو ایک مضبوط امیدوار کے طور پر دیکھا جارہا تھا، لیکن ان کے خلاف نیب مقدمات کے باعث ان کا نام وزارت اعلی کی فہرست سے باہر کردیا گیا۔
ان کے علاوہ جنوبی پنجاب سے خسرو بختیار کے بھائی ہاشم جواں بخت، لاہور سے میاں اسلم، چکوال سے یاسر ہمایوں، میانوالی سے رکن اسمبلی منتخب ہونے والے سبطین خان کا نام وزارت اعلٰی کے امیدوار کے طور پر سرفہرست تھا، جبکہ سابق وزیراعلٰی پنجاب پرویز الٰہی بھی اس دوڑ میں شامل تھے۔
دو ہفتوں سے زائد عرصے طویل مشاورت کے بعد اگست میں قائد ایوان منتخب ہونے کے بعد وزیراعظم عمران خان نے اپنا پہلا فیصلہ وزیراعلی پنجاب کی نامزدگی کا کیا اور انہوں نے سردار عثمان بزدار کو پنجاب کا وزیراعلی نامزد کرتے ہوئے سب کو حیران کر دیا۔
عثمان بزدار کون ہیں؟
وزیراعظم عمران خان متعدد بار عثمان بزدار کو بہترین وزیراعلی قرار دیتے ہوئے انہیں وسیم اکرم پلس بھی قرار دے چکے ہیں۔
پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازہ خان کی تحصیل تونسہ سے تعلق رکھنے والے عثمان بزدار 2018 میں پہلی مرتبہ رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے۔ عثمان بزدار تونسہ اور بلوچستان کے قبائلی علاقے میں آباد بزدار قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔
سردار عثمان بزدار کے والد سردار فتح محمد خان اپنے قبیلے کے سردار تھے، وی تین مرتبہ رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے، اور انہوں نے ایک سکول میں استاد کی حیثیت سے بھی کام کیا۔
عثمان بزدار نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز پرویز مشرف کے دور میں بلدیاتی انتخابات میں حصہ لے کر کیا اور وہ 2008 تک مسلم لیگ ق کے تحصیل ناظم رہے۔ 2008 میں انہوں نے مسلم لیگ ق چھوڑ کر مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کی۔ انہوں نے 2013 کے انتخابات میں مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کی سیٹ پر الیکشن میں حصہ لیا، تاہم ہو ناکام رہے۔
سنہ 2018 کے عام انتخابات سے قبل انہوں نے جنوبی پنجاب صوبہ محاذ میں شمولیت اختیار کی، تاہم انتخابات سے قبل خسرو بختیار کی سربراہی میں بننے والا یہ گروپ تحریک انصاف میں ضم ہوگیا۔
عثمان بزدار میڈیا اور خبروں سے دور رہنے والی شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں اور وزیراعظم عمران خان متعدد بار یہ کہہ چکے ہیں کہ عثمان بزدار میڈیا پر نہیں آتے اس لیے ان کے کاموں کو پذیرائی نہیں ملتی۔
حکومت سنبھالنے کے بعد عثمان بزدار وفاقی کابینہ کے اجلاس میں شرکت کے لیے خصوصی طور پر لاہور سے اسلام آباد پہنچتے۔ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ کابینہ اجلاس کی صدارت اور دیگر حکومتی امور نمٹانے کے لیے عمران خان انہیں تربیت دینے کے لیے وفاقی کابینہ کے اجلاسوں میں مدعو کیا کرتے تھے۔