Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وزیراعظم عمران خان کے خلاف ’مغربی سازش‘ کی گونج

پاکستان میں موجودہ حکومت اور وزیراعظم عمران خان کے خلاف ایک بار پھر حزب اختلاف کی جماعتیں اکٹھی ہوگئی ہیں اور ان کی حکومت کو تحریک عدم اعتماد کے تحت گرانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اپنا لانگ مارچ لیے اسلام آباد آچکی ہے اور جماعت کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری وزیراعظم عمران خان سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ کررہے ہیں۔
دوسری جانب سابق صدر آصف زرداری، قائد حزب اختلاف اور پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمان نے تقریباً روزانہ کی بنیاد پر ملاقاتوں کے بعد منگل کو قومی اسمبلی میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرادی ہے۔
پاکستان کے صوبہ پنجاب میں وزیراعظم عمران خان کے دو پرانے ساتھی جہانگیر ترین اور علیم خان بھی اپنی ہی جماعت کی حکومت کے خلاف صف آرا نظر آتے ہیں۔
پاکستان میں حزب اختلاف کی جماعتیں ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور ان کے رہنماؤں کے خلاف کرپشن کے بنائے گئے کیسز کو حکومت مخالف تحریک کی وجہ بتاتی ہیں۔
تاہم ملک میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو وزیراعظم عمران خان کی حکومت کو درپیش مشکلات کو بین الاقوامی سیاست سے جوڑتا ہوا نظر آتا ہے۔
وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے سیاسی ابلاغ ڈاکٹر شہباز گِل خود عدم اعتماد کی اس تحریک کو ’انٹرنیشنلی سپانسرڈ‘ قرار دے چکے ہیں۔

انہوں نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک پیغام میں لکھا کہ ’تحریک عدم اعتماد اپوزیشن نہیں عالمی طاقتیں لارہی ہیں اپوزیشن والے تو صرف کرائے کے بروکر (دلال) ہیں۔‘
تاہم وزیراعظم کے معاون خصوصی نے ان طاقتوں کا نام نہیں لیا، لیکن پاکستان کی سیاست میں دلچسپی رکھنے والے لوگوں کو اس بات کا بخوبی علم ہے کہ جب ملک میں عالمی طاقتوں کی بات ہوتی ہے اس سے مراد اکثر امریکہ ہوتا ہے۔
ایک سابق تھری سٹار جنرل محمد ہارون اسلم بھی ان لوگوں میں سے ہیں جو حکومت کو پیش آنے والی سیاسی مشکلات کو امریکی اور مغربی سازش سمجھتے ہیں۔

اپنی ایک ٹویٹ میں انہوں نے اس معاملے پر اپنے تجزیے کو پانچ نقطوں میں تقسیم کیا اور لکھا کہ ’اگر آئی کے (یعنی عمران خان) عدم اعتماد کے ذریعے معزول ہوجاتے ہیں تو (1) کوئی تیسری سیاسی قوت دہائیوں میں پاکستان میں نہیں ابھرے گی۔ (2) پاکستان امریکہ اور مغرب کے کنٹرول میں چلا جائے گا۔ (3) متوازن خارجہ پالیسی ممکن نہ ہوگی۔ (4) سیاسی جماعتیں امریکہ اور مغرب کو خوش کرنے لگیں گی جس سے قومی مفاد پر سمجھوتے ہوں گے۔ (6) پاکستان معاشی آئی سی یو میں رہے گا۔‘
وزیراعظم عمران خان کی کابینہ میں وزیر برائے بحری امور علی زیدی نے ایک تصویر پوسٹ کی جس میں اپوزیشن کے رہنماؤں کے کارٹونز کے ساتھ یورپی یونین اور امریکہ کا جھنڈا بھی دیکھا جاسکتا ہے۔

اس تاثر کو سمجھنے کے لیے اس کے تناظر کو سمجھنا ضروری ہے۔ یوکرین کی نیٹو میں شامل ہونے کی خواہش پر روس کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی اب جنگ میں بدل گئی ہے اور ایک بار پھر امریکہ سمیت مغربی ممالک اور روس ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان وہ پہلے بین الاقوامی رہنما تھے جنہوں نے گذشتہ ماہ روس کی جانب سے یوکرین پر حملے شروع کرنے کے بعد صدر ولادیمیر پوتن سے ملاقات کی۔
پاکستانی حکومت کے مطابق صدر پوتن سے ملاقات میں بھی وزیراعظم عمران خان نے معاملات کو سفارت کاری اور بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا تھا۔
یوکرین اور روس کے معاملے پر پاکستان نے غیرجانبدار مؤقف اختیار کررکھا ہے اور روسی حملوں کی مذمت کرنے سے بھی وزیراعظم عمران خان کی حکومت گریزاں نظر آتی ہے۔
رواں ماہ کے آغاز میں اس حوالے سے یورپی یونین کے 22 ممالک کے پاکستان میں ہیڈ آف مشنز نے پاکستانی حکومت کو خط لکھ کر یہ مطالبہ کیا تھا کہ پاکستان روس کے حملوں کی مذمت کرے۔
خط میں لکھا گیا تھا کہ ’اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مشنز کے سربراہوں کی حیثیت سے ہم پاکستان سے اصرار کرتے ہیں کہ روس کی کارروائی کی مذمت اور اقوام متحدہ کے چارٹر اور اس کے بین الاقوامی قانون کے بنیادی اصولوں کی حمایت اور اسے برقرار رکھنے میں ہمارا ساتھ دے۔‘

وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کے 76 ویں سیشن سے خطاب کیا (فائل فوٹو: اے ایف پی)

یورپی یونین کے نمائندوں کی جانب سے خط لکھنا پاکستانی حکومت کو پسند نہ آیا اور اس بات کا برملا اظہار وزیراعظم عمران خان خود ایک جلسے کے دوران کرچکے ہیں۔
پاکستان کے صوبہ پنجاب میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’ابھی یورپی یونین کے سفیروں نے پاکستان کو خط لکھا کہ آپ روس کے خلاف بیان دیں، اس کے خلاف ووٹ دیں۔ میں یورپی یونین کے سفیروں سے پوچھتا ہوں کہ کیا آپ نے انڈیا کو بھی یہ خط لکھا تھا؟‘
’میں اپنی قوم کو یاد کروانا چاہتا ہوں کہ یہ وہ پاکستان تھا جس نے نیٹو کی مدد کی، ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ان کا ساتھ دیا۔ میں کبھی نہ ساتھ دیتا، میں اپنے ملک کو اس جنگ سے باہر رکھتا لیکن اس وقت کے سربراہ نے اس کا ساتھ دیا۔‘
کیا امریکہ اور دیگر مغربی ممالک پاکستان کے اندورنی معاملات میں دخل اندازی کررہے ہیں؟
پاکستان کی جانب سے متعدد سفارتی ذمہ داریوں پر فائز رہنے والے سابق سفیر علی سرور نقوی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’دخل اندازی والی بات اس حد تک تو درست ہے کہ یورپی یونین کے نمائندوں نے جو حکومت کو خط لکھا وہ نامناسب تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’کسی ملک کی خارجہ پالیسی کو ڈکٹیٹ کرنا سفیروں کا کام نہیں۔‘
تاہم وزیراعظم عمران خان کی جانب سے جلسوں میں یورپی یونین اور امریکہ پر تنقید کے حوالے سے سابق سفیر کا کہنا تھا کہ ’میرا خیال ہے کہ یہ اچھا نہیں ہوتا اور ہمیں محتاط رہنا چاہیے۔‘
’سفارتی تعلقات سفارتی سطح پر ہوتے ہیں اور ان پر عوامی سطح پر تنقید کرنے کا اثر باہمی تعلقات پر اچھا نہیں پڑتا، چاہے وہ تعلقات سیاسی ہوں یا تجارتی ہوں۔‘
واضح رہے کہ یورپی یونین کے ممالک پاکستانی برآمدات کے حوالے سے سب سے بڑی مارکیٹ ہیں۔
پاکستان بزنس کونسل (پی بی سی) کے مطابق سال 2020 میں یورپی یونین کے ممالک میں پاکستانی برآمدات کی کل مالیت 5 ارب 50 کروڑ یورز تھی۔
سنہ 2012 سے 2015 تک پاکستان میں بحیثیت امریکی سفیر خدمات انجام دینے والے رچرڈ اولسن نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’پاکستان اس وقت مشکل پوزیشن میں ہے اور یوکرین پر روسی جارحیت کی مذمت نہ کرنے کے بین الاقوامی سطح پر مضمرات ہوسکتے ہیں کیونکہ یورپ کی سیاست بہت تیزی سے آگے نکل چکی ہے اور وہ یاد رکھتے ہیں کہ مشکل وقت میں کس نے کا ساتھ دیا تھا۔‘
تاہم سابق امریکی سفیر کا کہنا تھا کہ انہیں یقین ہے کہ پاکستان نے اس حوالے سے کسی بھی نتیجے پر پہنچنے سے قبل فائدوں اور نقصانات کا جائزہ لیا ہوگا۔
ایسا نہیں کہ امریکہ اور مغربی ممالک نے پاکستان کی اندرونی سیاست میں کبھی دخل اندازی نہ کی ہو۔

رچرڈ اولسن 2012 سے 2015 تک پاکستان میں امریکی سفیر رہے ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

پاکستان اور امریکہ کے درمیان جو بائیڈن کے صدر بننے کے بعد اب تک رابطہ نہیں ہوا ہے اور گذشتہ سال افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد پاکستانی میڈیا میں یہ خبریں بھی گردش کرتی رہی ہیں کہ امریکہ پاکستان میں فوجی اڈے رکھنے کا خواہش مند ہے۔
اس حوالے سے وزیراعظم پچھلے سال اپنے انٹرویو میں کہہ چکے ہیں امریکہ کی طرف سے اگر ایسا مطالبہ کیا گیا ان کا جواب ہوگا ’ایبسلوٹلی ناٹ‘ یعنی بلکل نہیں۔
حالیہ دور میں برطانیہ اور امریکہ کی پاکستانی سیاست میں دلچسپی کے حوالے سے شجاع نواز اپنی کتاب ’دا بیٹل فار پاکستان‘ میں لکھتے ہیں کہ سابق فوجی آمر پرویز مشرف کے دور میں امریکہ اور برطانیہ نے پاکستان میں جمہوریت کی واپسی کی کوششیں کیں۔
انہوں نے لکھا کہ پس پردہ دونوں ممالک دو سابق وزرائے اعظم بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی وطن واپسی کے لیے کوششیں کررہے تھے۔
واضح رہے کہ پرویز مشرف کے دور حکومت میں بے نظیر بھٹو برطانیہ اور نواز شریف سعودی عرب میں جلاوطنی کاٹ رہے تھے اور ان دونوں کی وطن واپسی 2007 میں ہوئی تھی۔

تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے اپوزیشن کو قومی اسمبلی میں 172 ووٹ درکار ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکہ ابھی بھی پاکستان کے سیاسی معاملات میں دلچسپی رکھتا ہے؟
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے سابق امریکی سفیر رچرڈ اولسن کا کہنا تھا کہ ’میرا نہیں خیال کہ امریکہ اس وقت پاکستان کے داخلی معاملات میں مداخلت کرنے میں کوئی دلچسپی رکھتا ہے۔‘
’امریکہ پاکستان میں جمہوری عمل آگے بڑھتا دیکھنا چاہتا ہے اور اندرونی معاملات میں مداخلت اس کی موجودہ پالیسی کے خلاف ہے۔‘
اس حوالے سے امریکی تھنک ٹینک ’اٹلانٹک کونسل‘ سے منسلک عزیر یونس کا کہنا ہے کہ ’بائیڈن انتظامیہ اس وقت اندرونی معاملات دیکھنے میں مصروف ہے اور پاکستان کی اندرونی سیاست میں خود کو پھنسانے میں بلکل دلچسپی نہیں رکھتی۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’خان اور ان کے حامی اس وقت پاکستان کی سڑکوں پر امریکہ مخالف جذبات پیدا کرکے سیاسی فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اس حکمت علمی سے پاکستان اور امریکی تعلقات مزید خراب ہوں گے۔‘
پاکستان میں تقریباً دو دہائیوں سے سیاسی اور بین الاقوامی امور پر گہری نظر رکھنے والے صحافی مبشر زیدی کا بھی خیال ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم استحکام کا تعلق کسی بین الاقوامی سازش سے نہیں۔

سابق سفیر علی سرور نقوی کے مطابق ’یورپی یونین کے نمائندوں نے حکومت کو جو خط لکھا وہ نامناسب تھا‘ (فائل فوٹو: روئٹرز)

ان کا کہنا تھا کہ ’بظاہر ایسا نہیں لگتا، مقامی سیاست میں ایک تاثر دیا جاتا ہے کہ سیاسی فیصلے امریکہ کے زیر اثر ہوتے تھے لیکن میرا نہیں خیال کہ ان سے ہمارے اب ایسے تعلقات ہیں۔‘
’یہ ایک ہوائی بات ہے کہ یہ ایک بین الاقوامی سازش ہے۔‘
مبشر زیدی کا مزید کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان کی حکومت کے شروع کے دنوں سے ہی کہا جاتا تھا کہ ’یہ جب بھی گریں گے اپنے ہی بوجھ تلے گریں گے۔‘
ان کے مطابق ماضی میں کہا جاتا تھا کہ ایسے اقدامات کے پیچھے اکثر اسٹیبلشمنٹ ہوتی ہے لیکن اب تو تمام جماعتیں انہیں نیوٹرل قرار دے رہی ہیں۔
’انہوں نے ساڑھے تین سال تک وزیراعظم عمران خان کو مکمل سپورٹ کیا اور جب انہوں نے دیکھا کہ نہیں چل رہی حکومت تو وہ یہ تاثر دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ وہ نیوٹرل ہوگئے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر وہ پیچھے نہیں تب بھی اس قدم کے پیچھے کم سے کم ان کی منظوری موجود ہے۔‘

شیئر: