Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’عثمان بزدار کہیں نہیں جا رہے‘، اپوزیشن کو ٹف ٹائم دینے کا فیصلہ

وزیراعظم نے کہا کہ عثمان بزدار کو ہٹانے کا مطلب ہے کہ میں نے عہدہ چھوڑ دیا‘ (فوٹو: اے پی پی)
وزیراعظم پاکستان عمران خان نے جمعرات کو لاہور میں ایک طویل مصروف دن گزارا اور کئی اجلاسوں کی صدارت کی۔ اردو نیوز نے ان اجلاسوں کی اندرونی کہانی تک رسائی حاصل کی ہے۔
پنجاب حکومت کے ایک اہم وزیر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر مختلف اجلاسوں میں ہونے والی گفتگو اور فیصلوں کے بارے میں اردو نیوز کو بتایا کہ ’وزیراعظم کا یہ دورہ اپنی پنجاب کی ٹیم کا حوصلہ بڑھانے کے لیے تھا اور انہوں نے کئی گھنٹے گزارے اور تقریبا سبھی وزرا اور صوبائی اسمبلی کے ممبران سے ملے۔‘
صوبائی وزیر نے بتایا کہ عمران خان نے دو ٹوک الفاظ میں باور کرایا کہ ’وزیراعلٰی پنجاب عثمان بزدار کہیں نہیں جا رہے۔ بزدار کو ہٹانے کا مطلب ہے کہ میں نے عہدہ چھوڑ دیا۔ میں کسی سے بلیک میل نہیں ہوں گا۔ جب تک میں ہوں بزدار اس وقت تک وزیراعلی پنجاب رہیں گے۔‘
وزیراعظم عمران خان نے یہ بھی کہا کہ ’میں تو اپوزیشن کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ وہ عدم اعتماد کی تحریک پنجاب میں لے کر نہیں آئے۔ اگر ایسا ہوتا تو ہمارے لیے مشکل زیادہ ہوتی۔‘
تحریک انصاف کے صوبائی وزیر نے مزید بتایا کہ ’چند وزرا اور صوبائی اسمبلی کے ممبران نے وزیراعظم کو شکائت بھی لگائی کہ علیم خان نے ان سے رابطہ کر کے اگلے انتخابات میں مسلم لیگ ن کے ٹکٹ دینے کی آفر کی ہے جبکہ پنجاب میں عدم اعتماد کی صورت میں نئی حکومت میں وہی عہدہ دیا جائے گا جو اس وقت ہے۔ وزیراعظم نے ان معلومات پر برہمی کا اظہار کیا۔‘
عمران خان نے تحریک انصاف کے وزرا اور ممبر صوبائی اسمبلی کو کہا کہ وہ اپنی توجہ وفاق میں آنے والی عدم اعتماد کی تحریک پر اور قومی اسمبلی کے ممبران پر کریں۔

وزیراعظم نے کہا کہ ’میں تو اپوزیشن کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ وہ عدم اعتماد کی تحریک پنجاب میں لے کر نہیں آئے۔‘ (فوٹو: اے پی پی)

وزیراعظم عمران خان نے تمام اراکین اسمبلی اور وزراء کو یہ بھی بتایا کہ ان کی عدم اعتماد کے حوالے سے حکمت عملی کیا ہے۔ انہوں نے واشگاف الفاظ میں یہ کہا کہ وہ عدم اعتماد کے عمل کو طوالت دینے کے حق میں ہیں۔ ’عدم اعتماد کا عمل مکمل ہونے میں ہفتوں بھی لگ سکتے ہیں۔‘
صوبائی وزیر کے بقول وزیراعظم نے بتایا کہ کس طریقے سے وہ ڈی چوک پر ایک بڑا جلسہ کرنے جا رہے ہیں تاہم اس جلسے کی تاریخ اور وقت بعد میں بتا دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ تمام لوگ اس جلسے کی تیاری کریں۔
وزیراعظم نے کہا کہ وہ پہلے لاہور مینار پاکستان پر یہ جلسہ کرنے کا سوچ رہے تھے لیکن بعد میں انہوں نے خود ہی اپنے خیال کو تبدیل کیا اور اس جلسے کو اسلام آباد ڈی چوک میں کرنے کا فیصلہ کیا۔
وزیراعظم نے اس بات کی نشاندہی کی کہ عدم اعتماد کے لیے ہونے والے اجلاس سے ایک روز قبل یہ جلسہ اسلام آباد میں منعقد کیا جائے گا۔
تحریک انصاف کے وزیر نے وزیراعظم کے لاہور میں ہونے والے اجلاسوں کی مزید تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ان اجلاسوں میں وہ تمام افراد جو چند روز میں اپنے آپ کو علیم خان گروپ کا بتا رہے تھے چاہے وزیر ہوں یا ایم پی اے، وہ عمران خان سے ملے اور انہوں نے عثمان بزدار اور وزیراعظم کی قیادت پر بھی اعتماد کا اظہار کیا۔

پنجاب میں تحریک انصاف میں گروپ بندی:

وزیراعظم عمران خان کے دورہ لاہور سے قبل پاکستان کے مقامی میڈیا میں کچھ ایسی خبریں بھی بہت تیزی کے ساتھ گردش کر رہی تھیں کہ تحریک انصاف پنجاب کی پارٹی میں دھڑے سامنے آئے ہیں۔
ان میں ایک جہانگیر خان ترین کا دھڑا ہے جو گذشتہ ایک سال سے اپنی الگ شناخت بنائے ہوئے ہیں اور اس کے 20،25 اراکین اسمبلی ہیں جبکہ چند روز قبل علیم خان نے ایک نئے گروپ کا اعلان کیا۔

جہانگیر خان ترین گروپ سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی اور وزراء ان اجلاسوں میں نظر نہیں آئے جن کی صدارت وزیراعظم عمران خان نے کی (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے پاس 40 کے قریب پنجاب اسمبلی کے اراکین ہیں جو ان کے ایک اشارے پر ان کے ساتھ ان کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہیں۔
اسی طرح ایک اور گروپ جو کہ تحریک انصاف کے ایم پی اے غظنفر چھینہ کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس 12 سے 15 اراکین اسمبلی ہیں جو ان کی ’ایک کال پر کوئی بھی فیصلہ کرنے کے لیے تیار ہو سکتے ہیں۔‘
تاہم وزیراعظم کے لاہور میں ہونے والے اجلاسوں میں میں علیم خان گروپ سے تعلق رکھنے والے وزرا اور اراکین اسمبلی موجود تھے اسی طرح غضنفر چھینہ اور ان کے تمام ایم پی اے بی ان اجلاسوں میں موجود تھے۔
جہانگیر خان ترین گروپ سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی اور وزراء ان اجلاسوں میں نظر نہیں آئے جن کی صدارت وزیراعظم عمران خان نے کی۔ صوبائی وزیر نعمان لنگڑیال جن کا تعلق ترین گروپ سے ہے، نے اپنا ایک بیان جاری کیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ ان کے گروپ کا ایک بھی فرد وزیراعظم سے ملنے نہیں گیا۔

شیئر: