کیا صرف سیاسی چال سیاست دانوں کو جلسوں پر مجبور کرتی ہے؟
کیا صرف سیاسی چال سیاست دانوں کو جلسوں پر مجبور کرتی ہے؟
جمعرات 10 مارچ 2022 5:46
رائے شاہنواز -اردو نیوز، لاہور
تحریک عدم اعتماد جمع ہونے کے بعد سے عمران خان کافی مصروف دکھائی دیتے ہیں(فوٹو: نیشنل اسمبلی)
پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد جمع کروا دی ہے۔ عدم اعتماد کی اس تحریک کی آمد سے پہلے ہی وزیراعظم عمران خان نے اس کا مقابلہ کرنے کی تیاریاں شروع کردی تھیں۔ اور اس بات کا پتا ان کی حالیہ تقاریر سے بھی چلتا ہے۔
وزیراعظم عمران خان گذشتہ ایک ماہ سے مختلف عوامی اجتماعات میں اس بات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
ان کی یہ بات منگل 8 مارچ کو اس وقت سچ ثابت ہوئی جب حزب اختلاف کی جماعتوں کی طرف سے ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد سپیکر ہاؤس میں جمع کروا دی گئی۔
اس تحریک سے پہلے اور اس کے جمع ہونے کے بعد سے وزیراعظم عمران خان کافی زیادہ مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی زیادہ مصروفیت کی وجہ وہ جلسے ہیں جن کا بندوبست ان کی حکومت اور جماعت پچھلے کچھ عرصے سے کر رہی ہے۔
وزیراعظم عمران خان کے حالیہ جلسے اور ان کی تقاریر ایک خاص طرح کے رخ کا تعین کرتی ہیں۔ اور وہ رخ یہ ہے کہ پاکستان کے سیاسی حالات میں جب بھی کوئی وزیراعظم سیاسی دباؤ کا شکار ہوتا ہے تو ان کا سب سے بڑا ہتھیار اسی طرح کے جلسے جلوس ہوتے ہیں۔
سینیئر صحافی اور سیاسی تجزیہ کار سہیل وڑائچ اس بات کی تائید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’اس بات میں کوئی دو آرا نہیں کہ پاکستان کا سیاسی نظام ہمیشہ ہی نازک رہا ہے۔ اور یہاں منتخب ہونے والے اب تک کے تمام وزرائے اعظم کو جلد یا بدیر انتہائی سخت سیاسی مخالفت کا سامنا رہا ہے۔‘
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ’وزیراعظم عمران خان جن حالات سے گزر رہے ہیں ان سے پہلے ان کے پیش رو بھی اس طرح کے حالات کا سامنا کرتے رہے ہیں۔‘
’سب وزرائے اعظم میں ایک قدر مشترک رہی ہے کہ سخت حالات آنے کے بعد انہوں نے عوامی جلسوں میں اپنا نقطہ نظر بیان کرنے کی کوشش کی۔‘
سہیل وڑائچ کے مطابق عمران خان جو اس وقت کر رہے ہیں وہ اس ملک کی سیاست میں نیا نہیں ہے، پاکستان کے پہلے وزیراعظم خان لیاقت علی خان بھی اسی طرح کے ایک جلسے کے دوران راولپنڈی میں خطاب کرتے ہوئے قتل کر دیے گئے تھے جب وہ عوام کے سامنے اپنا نقطہ نظر بیان کر رہے تھے۔
’دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان کے پہلے عام انتخابات کے بعد بننے والے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو بھی 1970 کی دہائی میں جب شدید قسم کی اپوزیشن کا سامنا کرنا پڑا تو وہ بھی وزیراعظم ہاؤس چھوڑ کر عوام میں آگئے اور انہوں نے اپنی سیاسی پوزیشن اپنی تقاریر کے ذریعے عوام کے سامنے رکھنے کی کوشش کی۔‘
بھٹو کے بعد جنرل ضیاالحق اقتدار میں آئے اور ان کی ایک حادثے میں وفات کے بعد جب پاکستان کا سیاسی نظام دوبارہ نظم میں آنا شروع ہوا تو بے نظیر بھٹو وزیراعظم بنیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’سنہ 1980 کی دہائی کے آخر میں بے نظیر بھٹو کے خلاف آئی جے آئی کے اتحاد نے جب جڑیں پکڑنا شروع کیں تو وہ بھی سڑکوں پر آگئیں۔ یہ صرف بے نظیر بھٹو نہیں تھیں بعد ازاں نواز شریف بھی اس صورت حال سے گزرے۔‘
سہیل وڑائچ نے کہا کہ ’اہم بات یہ ہے کہ 1999 میں جب جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کو اقتدار سے ہٹا دیا اور انہوں نے 2002 میں ایک نئی سیاسی جماعت کے ذریعے حکومت شروع کی تو 2007 میں ان کے خلاف بھی ایک بڑا سیاسی محاذ کھڑا ہوگیا۔‘
’اس کا مقابلہ کرنے کے لیے پرویز مشرف نے جلسے کیے اور مکے بھی لہرائے۔ اگر آپ کو یاد ہو تو انہوں نے ایک مکہ 12 مئی 2007 کو اسلام آباد کے اس جلسے میں لہرایا جب کراچی میں درجنوں افراد ایک احتجاج کے دوران مارے جاچکے تھے۔‘
ماضی کے اوراق سے بتاتے ہوئے سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ ’نواز شریف کے خلاف جب پانامہ کا کیس بنا اور انہیں اس بات کا یقین ہوگیا کہ اب مخاف قوتیں ان کو اقتدار سے الگ کرنا چاہتی ہیں تو انہوں نے عین اسی وقت جلسے جلوس شروع کر دیے۔‘
’عوامی پیکجز کا بھی اعلان کیا اور اپنے خلاف سازشیں کرنے والوں کو بغیر نام لیے تنبیہہ بھی کی۔ یہی اس وقت عمران خان بھی کر رہے ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ وہ اس وقت دباؤ میں ہیں اور اپنے دل کی بات وہ جلسے جلوسوں کے ذریعے متعلقہ حلقوں تک پہنچا رہے ہیں۔‘
جب سہیل وڑائچ سے پوچھا گیا کہ پاکستان کے تمام وزرائے اعظم کا سیاسی دباؤ کے نتیجے میں ردعمل ہمیشہ ایک جیسا کیوں رہا تو ان کا کہنا تھا کہ ’اس کی سادہ سی وجہ ہے۔ جب بھی وزیر اعظم باہر نکلتا ہے اور اپنا نقطہ نظر جلسے کے ذریعے عوام کے سامنے رکھتا ہے تو اس کا ایک ہی مطلب ہے کہ وہ یہ بھانپ چکا ہے کہ اس کے خلاف ایک بڑی سیاسی چال چلی جا چکی ہے۔ ایسے میں سیاسی شہادت کا درجہ حاصل کرنا ان کے لیے بہت ضروری ہوجاتا ہے۔‘