پاکستان کے پارلیمان میں ان دنوں ایک بار پھر ارکان کی وفاداریاں تبدیل ہونے کے خدشے کے پیش نظر منحرف ارکان کے خلاف کارروائی کی بات ہو رہی ہے۔
حکومت کی جانب سے نہ صرف اپنے ارکان کو اجلاس میں شرکت سے روکنے بلکہ تحریک عدم اعتماد میں حصہ لینے والے ممکنہ ارکان کے ووٹوں کو گنتی میں شامل نہ کرنے کے بارے میں بھی غور کیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں
-
کیا صرف سیاسی چال سیاست دانوں کو جلسوں پر مجبور کرتی ہے؟Node ID: 651426
-
جے یو آئی کے تمام کارکن رہا، ’اب سڑکوں پر آنے کی ضرورت نہیں‘Node ID: 651631
منصوبہ بندی کے تحت سپیکر ان ارکان کو منحرف قرار دے کر ان کا ووٹ گنتی میں شامل نہ کرنے کی رولنگ دیں گے۔ اس صورت حال نے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے جیسے کہ:
1: کیا کوئی پارلیمانی لیڈر اپنے ارکان کو اجلاس میں شرکت سے روک سکتا ہے؟
2: کیا سپیکر کسی رکن کا ووٹ گنتی میں شامل کرنے سے انکار کر سکتا ہے؟
3: کیا منحرف ارکان کے خلاف ڈیفیکشن کلاز ووٹ ڈالنے سے پہلے لاگو ہو سکتی ہے؟
پارلیمانی ذرائع نے اس حوالے سے اردو نیوز کو بتایا ہے کہ ’سپیکر اسد قیصر نے کم و بیش یہی سوال قومی اسمبلی کی لیگل برانچ کے اعلی حکام کے اجلاس میں پوچھے اور ان کی قانونی رائے طلب کی۔‘
حکام نے بتایا ہے کہ 'سپیکر کو بتایا گیا کہ پارٹی فیصلے کے تحت ارکان کو اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا کہا جا سکتا ہے۔ ارکان پارٹی فیصلے کی عموماً پاسداری بھی کرتے ہیں لیکن اگر کوئی رکن اجلاس میں شرکت کے لیے پہنچ جاتا ہے تو اسے منحرف رکن اس وقت تک قرار نہیں دیا جا سکتا جب تک وہ مخالفت میں ووٹ نہیں دیتا۔'

حکام کا کہنا ہے کہ 'لیگل ٹیم نے سپیکر کو آگاہ کیا ہے کہ کسی رکن کو ووٹ ڈالنے اور اس کے ووٹ کو گنتی میں شامل کرنے سے انکار کا کوئی قانونی راستہ موجود نہیں ہے۔ اگر سپیکر نے ایسی کوئی رولنگ دی تو اس سے ملک میں آئینی بحران پیدا ہو سکتا ہے۔'
حکام نے سپیکر کو یہ بھی بتایا ہے کہ کسی بھی رکن کے منحرف ہونے کی صورت میں اس کے خلاف کارروائی کا طریقہ کار آئین میں موجود ہے۔ یہ کارروائی اس وقت ہی شروع ہو سکتی ہے جب کوئی رکن وزیراعظم کے انتخاب، عدم اعتماد یا اعتماد کا ووٹ اور منی بل پر پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دے۔
’اس سے قبل اسے منحرف رکن کہہ کر ووٹنگ سے روکنے سمیت کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جا سکتی۔'
اس حوالے سے سپیکر کے سامنے آرٹیکل 63 اے کی مکمل وضاحت پیش کی گئی ہے۔
آرٹیکل 63 اے کے تحت کارروائی کیسے ہوتی ہے؟
آئین میں آرٹیکل 63 اے 2010 میں اٹھارھویں ترمیم کے ذریعے شامل کیا گیا جس کا مقصد ہارس ٹریڈنگ اور فلور کراسنگ کو روکنا تھا۔
اس کے تحت اگر کوئی رکن قومی اسمبلی اپنی پارٹی کی بنیادی رکننیت سے استعفٰی دے یا کسی دوسری جماعت میں شامل ہو جائے یا پارٹی سربراہ کی مرضی کے خلاف ووٹنگ کے دوران غیر جانبدار رہے یا مخالفت میں ووٹ دے تو اس کے خلاف نا اہلی کی کارروائی عمل میں لائی جا سکتی ہے۔
جن معاملات میں پارٹی سربراہ متعلقہ رکن کے خلاف رکنیت ختم کرنے کی کارروائی عمل میں لا سکتے ہیں ان میں وزیر اعظم یا وزرائے اعلیٰ کا انتخاب، اعتماد کا ووٹ دینے یا عدم اعتماد کے خلاف ووٹ کرنے اور منی بل یا آئینی ترمیم کے بل پر ووٹنگ شامل ہیں۔
ان معاملات میں اگر کوئی پارٹی سربراہ کی مرضی کے خلاف ووٹ دیتا ہے تو پارٹی سربراہ اپنے رکن سے وضاحت طلب کرے گا۔ وضاحت سے مطمئن نہ ہونے کی صورت میں اسے منحرف قرار دے کر تحریری طور پر پریزائیڈنگ آفیسر اور الیکشن کمیشن کو آگاہ کیا جا سکتا ہےاور یہی تحریری نوٹس متعلقہ رکن کو بھی بھیجا جائے گا۔
پریزائیڈنگ آفیسر دو دن میں معاملہ چیف الیکشن کمشنر کو بھیجیں گے اور اگر وہ دو دن میں معاملہ ریفر نہیں کرتے تو وہ ریفر شدہ ہی سمجھا جائے گا۔ چیف الیکشن کمشنر اسے الیکشن کمیشن کے سامنے رکھیں گے جو 30 دن مین اس پر فیصلہ کرے گا۔
انحراف ثابت ہو جانے کی صورت میں متعلقہ رکن کی اسمبلی رکنیت ختم کر دی جائے گی اور اس کی سیٹ خالی قرار دے دی جائے گی۔
الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف 30 روز میں سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی جا سکے گی جس کا فیصل حتمی ہوگا۔
ماہرین کیا کہتے ہیں؟
قومی اسمبلی کے سابق ایڈیشنل سیکرٹری طاہر حنفی نے اردو نیوز کو بتایا کہ کسی بھی رکن کے خلاف انحراف کی کارروائی کے لیے آئین میں ایک شرط ہے کہ اس نے پارٹی فیصلے کے خلاف ووٹ دیا ہو۔
’جب یہ شرط لاگو ہو جائے تو پھر اسے ووٹ سے پہلے منحرف قرار نہیں دیا جا سکتا۔ سپیکر اگر اس کا ووٹ گنتی میں شامل نہیں کرتے تو رولنگ عدالت میں چیلنج ہو سکتی ہے۔ اس کا نتیجہ کچھ ہو سکتا ہے۔'
انھوں نے بتایا کہ قواعد میں یہ بات تو موجود ہے کہ سپیکر ارکان کو ووٹ ڈالنے کا کہے گا لیکن یہ بات کہیں بھی موجود نہیں ہے کہ سپیکر ارکان کے ووٹوں کو حتمی گنتی میں شامل کرنے سے انکار کر سکتا ہے۔
’اس لیے جس نے یہ سپیکر کو یہ تجویز دی ہے اس کو چاہیے کہ وہ پہلے آرٹیکل 63 اے اور قومی اسمبلی قواعد میں ترمیم کرے۔ اس سے پہلے بھی ملک میں سیاسی بحران اور مشکلات آتی رہی ہیں اور اگر کسی نے ایسا نہیں سوچا تو اس کا مطلب ہے کہ اب بھی ایسا سوچنے سے پہلے ترامیم کی ضرورت ہے۔ موجودہ حالت میں آئینی طور پر کوئی مدد ملتی ہوئی نظر نہیں آتی۔'
