Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وزیراعظم کےخلاف تحریک عدم اعتماد:حکومتی اتحادی کہاں کھڑے ہیں؟

ایم کیو ایم کی قیادت کل ایک بار اسلام آباد پہنچ رہی ہے جہاں وہ مسلم لیگ ق اور دیگر جماعتوں سے ملاقاتیں کرے گی۔ (فوٹو: ٹوئٹر)
پاکستان کی اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے وزیر اعطم عمران خان کے خلاف تحریک عدم جمع کرائے جانے کے بعد جہاں حکومت کو اپنے ارکان کی جانب سے خدشہ لاحق ہے کہ وہ اپوزیشن کا ساتھ دے سکتے ہیں وہیں حکومتی اتحادی بھی اپنے مستقبل کے فیصلے کرنے کے لیے مشاورت کر رہے ہیں۔ 
ق لیگ کے رہنما بار بار اس بات کا اظہار کر چکے ہیں کہ جب تحریک انصاف کا اپنا شیرازہ بکھر رہا ہے تو ہمیں یعنی اتحادیوں کو بھی فیصلہ کر لینا چاہیے۔
اس سلسلے میں مسلم لیگ ق کی مرکزی قیادت کا مشاورتی اجلاس اتوار کو اسلام آباد میں ہوا جس میں دو اہم باتیں سامنے آئی ہیں۔
سپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الٰہی نے بتایا کہ ’ہماری جماعت نے اپنے مستقبل کا فیصلہ کر لیا ہے لیکن ہم کس طرف جائیں گے اس کا اعلان ایک دو روز میں دوسرے اتحادیوں ایم کیو ایم اور بلوچستان عوامی پارٹی سے مشاورت کے بعد کریں گے۔‘
پرویز الٰہی نے یہ بھی بتایا کہ ’اس بات پر اتفاق ہو گیا ہے تمام اسمبلیاں اپنی باقی مدت پوری کریں گی اور اگر ہم نے اپوزیشن کے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا تو اتحادی وزراء کابینہ سے مستعفی ہو جائیں گے۔‘
چوہدری پرویز الٰہی نے میڈیا سے گفتگو میں یہ نہیں بتایا کہ ان کی جماعت کا فیصلہ کیا ہے تاہم ق لیگ کے ذرائع نے اردو نیوز کو بتایا ہے کہ ’ق لیگ نے اپوزیشن کا ساتھ دینے کا فیصلہ کر لیا ہے اور ق لیگ کے آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمان سے معاملات طے پا چکے ہیں۔
ذرائع کے مطابق ’صرف ق لیگ ہی نہیں بلکہ ایم کیو ایم اور بلوچستان عوامی پارٹی بھی اپوزیشن کے ساتھ جانے کے لیے تیار ہیں۔ اگلے ایک دو روز میں حتمی فیصلہ سامنے آنے کے بعد اتحادی مشترکہ پریس کانفرنس کے ذریعے حکومت سے علیحدگی کا اعلان کر سکتے ہیں۔‘

ذرائع کا کہا ہے کہ ق لیگ کے آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمان سے معاملات طے پا چکے ہیں۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

دوسری جانب بلاول بھٹو زرداری نے حکومت کے اہم اتحادی ایم کیو ایم کے حوالے سے نرم رویہ اپناتے ہوئے کہا ہے کہ ’ایم کیو ایم سے ہمیں کچھ مسائل تھے لیکن اب دونوں جماعتیں سمجھتی ہیں کہ عوام کی حالت بہتر کرنے کے لیے مل کر کام کریں۔ ہم بات چیت کے ذریعے کسی سمجھوتے پر پہنچ سکتے ہیں۔‘
ایم کیو ایم کی قیادت کل ایک بار اسلام آباد پہنچ رہی ہے جہاں وہ مسلم لیگ ق اور دیگر جماعتوں سے ملاقاتیں کرے گی۔ اس سے پہلے بھی متحدہ کے وفد کی ق لیگ اور بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنماوں سے ملاقاتیں ہو چکی ہیں۔ 
بلوچستان عوامی پارٹی کی جانب سے اگرچہ  ابھی تک موجودہ صورت حال کے حوالے سے کوئی اعلان سامنے نہیں آیا لیکن ذرائع کے مطابق ان کا فیصلہ مسلم لیگ ق سے مختلف نہیں ہوگا۔
دوسری جانب پیپلز پارٹی کے رہنما سید کورشید نے بتایا ہے کہ ’چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا فیصلہ اس لیے نہیں کیا جا رہا کہ ان کے سامنے تجویز رکھی گئی ہے کہ وہ اپنی جماعت کے ارکان سمیت اپوزیشن کے ساتھ آ جائیں۔‘
جی ڈی اے کی جانب سے بھی کوئی واضح فیصلہ سامنے نہیں آیا لیکن وزیر اعظم کے دورہ کراچی کے دوران پیر پگاڑہ نے ان سے ملاقات سے معذرت کر لی تھی، جسے بعض حلقوں کی جانب سے ناراضگی کا اظہار قرار دیا جارہا ہے۔

چودھری پرویز الہی کا کہنا ہے کہ شہباز شریف سے ملاقات کسی بھی وقت ہو سکتی ہے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

ایک طرف جہاں اپوزیشن جماعتوں کو اتحادیوں کے ساتھ ملنے کا یقین ہے تو دوسری جانب حکومتی جماعت بھی اپنے اتحادیوں کو منانے اور ان کے تحفظات دور کرنے کے جتن کر رہی ہے۔ 
کراچی میں گورنر سندھ نے ایم کیو ایم کے وفد سے ایک بار پھر ملاقات کرکے موجودہ صورت حال پر ان کے ساتھ بات چیت کی ہے اور ان کے ساتھ کیے گئے وعدوں پر عمل در آمد کے حوالے سے آگاہ کیا ہے۔ 
وزیر داخلہ شیخ رشید کا کہنا ہے کہ عمران خان اپنی مدت پوری کریں گے اور دو دن بعد صورت حال واضح ہو جائے گی جس میں عمران خان کو بڑی کامیابی ملے گی اور اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد ناکام ہوگی۔ 
 

شیئر: