Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حکومت کے لیے بڑا چیلنج اتحادی جماعتیں یا ناراض اراکین؟

سینئیر تجزیہ کار سلمان غنی کا کہنا ہے کہ ’علیم خان اور ترین گروپ کو آسانی سے رام نہیں کیا جا سکتا (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان میں سیاسی صورت حال ہر گزرتے دن کے ساتھ پیچیدہ ہوتی جارہی ہے۔ حکومت ہو یا اپوزیشن، سیاسی رہنما ایک سے بڑھ کر ایک بیان داغ رہے ہیں جس سے سیاسی ماحول کافی گرم  ہو چکا ہے۔  
ایک طرف حکومت کے اتحادی اپوزیشن سے رابطوں میں ہیں تو دوسری طرف خود حکومت کی اپنی صفوں سے ایسی آوازیں بلند ہو چکی ہیں جنہیں ان سُنا نہیں کیا سکتا۔

’اتحادی جماعتوں سے خطرہ‘

وزیراعظم عمران خان کی حکومت کو سب سے بڑا خطرہ کیا ان جماعتوں سے ہے جن کی بدولت ان کی یہ حکومت قائم ہے۔ اتحادیوں میں سر فہرست ایم کیو ایم، مسلم لیگ ق، جی ڈی اے اور باپ کی جماعتیں ہیں۔
اہم بات یہ ہے کہ حکومت جن اتحادیوں کے سہارے کھڑی ہے انہوں نے ابھی تک اس سیاسی بحران میں کھل کر حکومت کی حمایت کا اعلان نہیں کیا ہے۔  
اس کے برعکس وہ نہ صرف اپوزیشن کے ساتھ مکمل رابطوں میں ہیں بلکہ وہ وزیراعظم کو بھی جلد از جلد کوئی فیصلہ کرنے کا کہہ رہی ہیں جو اتحادیوں کو اس ’اتحاد‘ میں مزید رہنے کے قابل بنائے۔  
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار فہد حسین سمجھتے ہیں کہ ’اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ اپوزیشن اس وقت حکومت کی اتحادی جماعتوں سے گہرے رابطوں میں ہے بلکہ میں تو یہاں تک کہوں گا کہ جو کچھ کیمروں کے سامنے نظر آرہا ہے اس سے کہیں زیادہ کام کیمروں کے پیچھے ہو رہا ہے۔‘

جہانگیر ترین اور علیم خان اس وقت لندن میں ہیں اور ان سے رابطے میں رہنے والے اراکین  ان کے اشارے کے منتظر ہیں (فوٹو: ٹوئٹر)

انہوں نے کہا کہ جتنی آفرز اپوزیشن کے پاس ہیں یہ حیران کن بات ہو گی کہ وہ کھل کر حکومت کا ساتھ دے سکے۔ حکومت بھی اپنے اتحادیوں کے ساتھ مذاکرات کر رہی ہےلیکن وہ مطمئن دکھائی نہیں دے رہے۔‘  
فہد حسین کہتے ہیں کہ اس بات سے اندازہ لگائیں کہ کس حکومتی اتحادی سیاسی جماعت نے ابھی غیر مشروط طور پر وزیراعظم عمران خان کی حمایت کا اعلان کیا ہے؟ ’آپ کو ایک بھی سیاسی جماعت نظر نہیں آئے گی۔  مجھے یہی لگ رہا ہے کہ حکومت کا بڑا چیلنج اپنے اتحادیوں کو ساتھ رکھنا ہی ہے۔‘

پارٹی میں دھڑے بندی تحریک انصاف کے لیے خطرہ:

ایک طرف تو حکمراں جماعت تحریک انصاف اپنے اتحادیوں کو ساتھ ملا کر آنے والی تحریک عدم اعتماد کا مقابلہ کرنے کی کوشش میں مصروف نظر آتی ہے جبکہ دوسری جانب پی ٹی آئی کو پارٹی کے اندر سے شدید دھڑے بندیوں کا سامنا ہے۔
اس وقت دو متحرک رہنما جہانگیر ترین اورعلیم خان جو کسی دور میں پارٹی کا اثاثہ سمجھے جاتے تھے، اپنی ہی پارٹی کے لیے سب سے بڑا خطرہ بنتے دکھائی دے رہے ہیں۔ 
دونوں رہنما اس وقت لندن میں ہیں جبکہ ان سے رابطے میں رہنے والے اراکین اسمبلی ان کے اشارے کے منتظر ہیں۔  
ویسے تو یہ دھڑے پارٹی کے اندر موجود ہی تھے لیکن اب عدم اعتماد کی تحریک جمع ہونے کے بعد ان کو نظرانداز کرنا خود تحریک انصاف کے لیے ممکن نہیں۔

حکومت جن اتحادیوں کے سہارے کھڑی ہے انہوں نے ابھی تک اس سیاسی بحران میں کھل کر حکومت کی حمایت کا اعلان نہیں کیا (فوٹو: شہباز گل)

خود وزیراعظم بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ ’ترین اور علیم کبھی بھی اپوزیشن کے ساتھ کھڑے نہیں ہوں گے‘ لیکن دلچسپ بات یہ کہ جب وزیراعظم لاہور میں یہ بات کر رہے تھےعین اسی وقت لندن میں علیم خان نواز شریف سے ملاقات کر رہے تھے۔
ان دونوں دھڑوں سے پہنچنے والے نقصان کو کم کرنے کے لیے وزیر اعظم خود لاہور آئے اور اراکین اسمبلی سے ملاقاتیں کی اور وزیراعلی پنجاب سردار عثمان بزدار کی ذمہ داری لگائی کہ وہ ’ڈیمج کنٹرول‘ کریں۔
سینئیر تجزیہ کار سلمان غنی کا کہنا ہے کہ ’علیم خان اور ترین گروپ کو آسانی سے رام نہیں کیا جا سکتا۔ وزیراعظم کی لاہور آمد کے وقت ان دھڑوں کے جو لوگ اجلاسوں میں شریک ہوئے وہ سب پنجاب اسمبلی سے تعلق رکھتے ہیں۔ ابھی تک پنجاب میں وزیر اعلی بزدار کے خلاف کوئی سیاسی ہلچل نہیں۔‘

وزیراعظم عمران خان یہ کہہ چکے ہیں کہ ’ترین اور علیم کبھی بھی اپوزیشن کے ساتھ کھڑے نہیں ہوں گے‘ (فوٹو: ٹوئٹر)

انہوں نے کہا کہ ’ترین گروپ تو کہہ چکا ہے کہ وزیراعظم سے بات ہی بزدار کے ہٹائے جانے کے بعد ہو گی۔ تو وہ کلیئر ہیں البتہ علیم گروپ کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے وہ ان کی واپسی کے بعد پتہ چلے گا۔ البتہ میں سمجھتا ہوں کہ اتحادیوں سے زیادہ حکومت کو اپنے ہی اراکین سے زیادہ خطرہ ہے۔‘  
خیال رہے کہ علیم خان گروپ کے 10 کے قریب اراکین اسمبلی نے وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کی تھی جبکہ ترین گروپ کے تین ارکین اسمبلی سے جمعے کے روز ملاقات ہوئی جس سے اس تاثر کو تقویت مل رہی ہے کہ حکومت ہر ممکن طور پر ان دھڑوں کو عدم اعتماد سے پہلے ختم کرنے کی خواہاں ہے۔
تاہم سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق جہانگری ترین اور علیم خان کے اپنے واضح اور حتمی بیانات تک سلسلہ ایسے ہی چلتا رہے گا۔  

شیئر: