پانچ ماہ میں مقدمے کا ٹرائل مکمل کرنے کے بعد محفوظ کیا گیا فیصلہ اسلام آباد کے ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی نے سنایا۔
خیال رہے پچھلے سال جولائی میں اسلام آباد کے سیکٹر ای الیون میں لڑکے اور لڑکی کو ہراساں کرنے کی ویڈیو منظر عام پر آئی تھی جس کے بعد اسلام آباد پولیس نے ملزمان کو گرفتار کرتے ہوئے مقدمہ درج کر لیا تھا۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک کمرے میں کچھ افراد کے درمیان ایک لڑکے اور لڑکی موجود ہیں اور ایک شخص ان کے ساتھ نازیبا سلوک کر رہا ہے۔
اس کیس میں وزیراعظم عمران خان نے نوٹس لیتے ہوئے آئی جی اسلام آباد کو کیس کی خود نگرانی کرنے کی ہدایت کی تھی۔
دوران تفتیش یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ مرکزی ملزم عثمان مرزا اور دیگر ملزمان نے متاثرہ لڑکی اور لڑکے کو بلیک میل کر کے 13 لاکھ روپے بھی لیے تھے۔
یکم فروری 2022 کو ہونے والی سماعت کے موقع پر عدالت کو بتایا گیا تھا کہ وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) معلوم نہیں کر سکاکہ متاثرہ لڑکی اور لڑکے کی ویڈیو پہلی دفعہ کس اکاؤنٹ سے اپ لوڈ ہوئی تھی۔
مرکزی ملزم عثمان مرزا کے وکیل جاوید اقبال وینس نے تفتیشی افسر شفقت محمود پر جرح کی تھی۔
جرح کے دوران تفتیشی افسر نے بتایا تھا کہ کال ریکارڈ ڈیٹا کے مطابق 16 نومبر سے 20 نومبر 2020 تک متاثرہ لڑکی کی لوکیشن لاہور میں نہیں آئی اور جبکہ اس عرصے کے دوران لڑکی کی لوکیشن اسلام آباد ہی ریکارڈ ہوئی۔ واضح رہے کہ ایف آئی آر کے مطابق متاثرہ لڑکی لاہور سے انٹرویو کے لیے اسلام آباد آئی تھیں۔
یکم فروری کو ہونے والی سماعت کے موقع پر رکن قومی اسمبلی اور پارلیمانی سیکرٹری ملیکہ بخاری بھی آدھے گھنٹے تک کمرہ عدالت میں موجود رہیں۔ بعدازاں انہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا تھا کہ اس کیس کی پیروی ریاست خود کر رہی ہے اور میں سماعت کی آبزرویشن کے لیے عدالت آئی تھیں۔