انڈین طالبہ کی یونیورسٹی میں حجاب کے ساتھ نماز کی ادائیگی، تحقیقات کا حکم
وائس چانسلر نیلما گپتا نے کہا کہ ’یہ معاملے کی تحقیقات کےلیے کمیٹی بنا دی گئی ہے (فوٹو اے ایف پی)
انڈیا کی ریاست مدھیا پردیش کے شہر بھوپال کی ایک یونیورسٹی میں ایک مسلمان طالبہ نے حجاب کے ساتھ کلاس روم میں نماز ادا کی جس کے بعد ایک تنازع کھڑا ہو گیا ہے۔
انڈین نیوز چینل این ڈی ٹی وی کے مطابق یہ طالبہ ڈاکٹر ہری سنگھ گور ساگر یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں۔
دائیں بازو کی طلبہ تنظیم ’ہندو جاگرن منچ‘ نے یونیورسٹی انتظامیہ سے طالبہ کے خلاف ایکشن لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ جب کہ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ حجاب میں نماز کی ادائیگی کی تحقیقات کا حکم دے دیا گیا ہے۔
وائس چانسلر نیلما گپتا نے کہا کہ ’معاملے کی تحقیقات کے لیے کمیٹی بنا دی گئی ہے اور اس کے ساتھ طالبہ کو بھی کہہ دیا گیا ہے کہ وہ گھر پر عبادت کریں، کیونکہ یونیورسٹی پڑھنے کے لیے ہے۔‘
یونیورسٹی کے رجسٹرار سنتوش ساہگورا کا کہنا ہے کہ انہیں شکایت کے ساتھ ایک ویڈیو موصول ہوئی ہے جس میں طالبہ کلاس کے اندر نماز ادا کر رہی ہے۔
’پانچ ممبران پر مشتمل کمیٹی تین روز میں رپورٹ پیش کرے گی اور اس کی بنیاد پر کارروائی کی جائے گی۔‘
طلبہ تنظیم ’ہندو جاگرن منچ‘ کے چیف امیش سراف نے الزام لگایا کہ ویڈیو میں نظر آنے والی طالبہ کافی عرصے سے حجاب پہن کر کلاسز لے رہی ہے۔
’اس طرح کی مذہبی سرگرمیوں کی تعلیمی اداروں میں اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ وہ کافی عرصے سے حجاب پہن کر آرہی ہیں، لیکن انہیں جمعے کو کلاس روم میں نماز پڑھتے دیکھا گیا۔ یہ قابل اعتراض ہے کیونکہ تعلیمی ادارے ہر مذہب کے لیے ہیں۔‘
انہوں نے کرناٹک ہائی کورٹ کے 15 مارچ کے اس فیصلے کی مثال دی جس میں عدالت نے کلاس رومز میں حجاب پہننے پر پابندی کے خلاف پٹیشن رد کی تھی۔
کرناٹک ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ حجاب مذہب میں لازم نہیں ہے اور عدالت نے کلاس روم میں حجاب پہننے پر پابندی کی حمایت کی تھی۔
عدالت کے اس فیصلے کو نِبا ناز نامی ایک طالبہ نے سپریم کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے۔ یہ ان پانچ طلبہ میں سے ایک ہیں جنہوں نے حجاب پر پابندی کو چیلنج کیا تھا۔