Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دھمکی آمیز خط کے الزامات میں کوئی صداقت نہیں: امریکہ

امریکی محکمہ خارجہ نے تردید کی ہے کہ کسی بھی امریکی محکمے یا افسر نے پاکستان کو کوئی ایسا خط یا مراسلہ نہیں بھیجا جس کا تعلق ملک کی سیاسی صورتحال سے ہو۔
جمعرات کو اردو نیوز نے امریکی محکمہ داخلہ سے یہ سوال کیا کہ کیا امریکی حکومت نے پاکستانی حکام کو کوئی ایسا خط بھیجا ہے جسے پاکستانی حکام کسی قسم کی دھمکی تصور کررہے ہوں؟
اس سوال کے جواب میں امریکی محکمہ خارجہ نے بذریعہ ای میل اردو نیوز کو بتایا کہ ’ان الزامات میں کوئی صداقت نہیں۔‘
امریکی محکمہ خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم پاکستان میں صورتحال کو قریب سے دیکھ رہے ہیں اور ہم پاکستان میں آئینی عمل اور قانون کی عملداری کی حمایت اور احترام کرتے ہیں۔‘
واضح رہے 27 مارچ کو اسلام آباد میں ایک جلسے کے دوران پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے اپنے حامیوں کے سامنے ایک خط لہراتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی حکومت کو ہٹانے کے لیے باہر سے سازش ہو رہی ہے۔
گذشتہ اتوار کو ایک جلسے میں وزیراعظم عمران خان نے خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ ’باہر سے ہماری حکومت تبدیل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔‘
اتوار کو اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ ’پیسہ باہر سے آ رہا ہے، لوگ ہمارے استعمال ہو رہے ہیں، زیادہ تر انجانے میں، لیکن کچھ جان بوجھ کے یہ پیسہ استعمال کر رہے ہیں۔‘
اس خط کے حوالے سے حکومتی وزیر اسد عمر نے گذشتہ روز میڈیا کو بتایا تھا کہ ’یہ مراسلہ اعلیٰ ترین سول ملٹری شخصیات کے ساتھ شیئر کیا گیا ہے، کابینہ کے کچھ اراکین کو ہی معلوم ہے کہ اس میں کیا لکھا ہے‘۔
انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم نے کہا ہے کہ خط پر کسی کو شک ہے تو وہ چیف جسٹس آف پاکستان کو دکھانے کے لیے تیار ہیں۔
تاہم وزیراعظم عمران خان نے بدھ کو اس خط کے حوالے سے چند صحافیوں کو وزیراعظم ہاؤس میں مدعو کیا تھا جہاں ان سے خط کے مندراجات شیئر کیے گئے تھے۔

وزیراعظم عمران خان کا دعویٰ ہے پاکستان کے باہر سے ان کی حکومت گرانے کی کوشش ہورہی ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

اس موقع پر وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ’خط خفیہ دستاویز ہے اسی لیے آپ لوگوں سے صرف مفہوم شیئر کیا گیا ہے۔‘
’اس کے مندرجات من وعن نہیں بتا سکتا اور نہ ہم اس ملک کا نام لے سکتے ہیں جس کے اعلٰی حکام کی طرف سے ہمیں خط کے ذریعے یہ پیغام دیا گیا۔‘
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ’ملک کا نام بتانے کی صورت میں نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔ خط کا پیغام باضابطہ سرکاری اجلاس کے دوران موصول ہوا۔ پیغام کی زبان بہت سخت ہے اور اِس میں تحریک عدم اعتماد کا متعدد بار ذکر کیا گیا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’میں کسی ملک کے خلاف نہیں ہوں۔ بہت ساری چیزیں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی وجہ سے نہیں بتاسکتے۔ تاہم اسے پارلیمان میں پیش کریں گے۔
ذرائع کے مطابق وفاقی کابینہ کو بتایا گیا کہ امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر اسد مجید نے دفتر خارجہ کو خفیہ مراسلہ بھیجا۔ اسد مجید نے امریکی نائب وزیر خارجہ برائے جنوبی ایشیا سے ملاقات کے بعد یہ مراسلہ بھیجا۔

امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ ’ان الزامات میں کوئی صداقت نہیں۔‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

میٹنگ میں موجود پاکستانی ٹی وی چینل ’اب تک‘ کی اینکرپرسن فریحہ ادریس نے اردو نیوز کے نمائندہ روحان احمد کو بتایا کہ ’وزیراعظم نے دوران ملاقات آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی وجہ سے دھمکی آمیز خط تو نہیں دکھایا، لیکن انہوں نے کہا کہ یہ دھمکی حقیقتاً دی گئی ہے اور وہ کوئی کہانی نہیں بنا رہے۔‘
فریحہ کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ خط کابینہ کے اراکین کو دکھایا گیا ہے اور یہ آٹھ سے دس صفحوں پر مشتمل ہے۔‘
اینکرپرسن نے تصدیق کی کہ یہ دستاویز دراصل ایک کیبل ہے اور یہ روٹین کے طور پر بھیجی جاتی ہے۔
’ہمیں ملک کا نام تو نہیں بتایا گیا، لیکن اس دستاویز میں پاکستانی حکام کی ایک دوسرے ملک کے حکام سے ملاقات اور بات چیت کا ذکر ہے۔‘

 

شیئر: