وفاقی وزرا نے اپنی پریس کانفرنس میں اس خط کو ’مراسلہ‘ کہا جبکہ اب کسی ’ڈپلومیٹک کیبل‘ کی بات بھی ہو رہی ہے۔
ڈیپلومیٹک کیبل کیا ہوتی ہے؟
سابق سفیر عارف کمال نے اردو نیوز کو بتایا کہ ‘سفارتی سطح پر روابط کے مختلف طریقہ کار ہوتے ہیں جس میں سفارتخانہ اپنے ہیڈ کوارٹر کو رپورٹ کرتا ہے۔ اس میں ایک ذریعہ خط ہے، ٹیلی گرام ہے اور اس میں بھی کئی طریقے ہیں۔‘
عارف کمال کے مطابق ’بنیادی طور پر کیبل ایک ٹیلی گرام یا تار ہوتا ہے، ایسی کیبلز بھی ہوتی ہیں جو عام آدمی نہیں سمجھ سکتا اس کو ڈی کوڈ کیا جاتا ہے۔ ایسی کیبل کو ‘سائیفر کیبل‘ کہا جاتا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ‘سفارتخانے کی جانب سے ہیڈ کوارٹر کو دی جانے والی ایسی اطلاع جسے باقی لوگ نہ پڑھ سکیں نہ ترجمہ کرسکیں وہ سائیفر کہلاتی ہے۔‘
سابق سفیر نے سفارتی روابط کے طریقہ کار کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ ’سفارتخانہ سیکرٹری خارجہ کو رپورٹ کرتا ہے اور اگر کوئی معلومات سائیفیر ٹیلی گرام ہے تو وزارت خارجہ اور وزیراعظم سمیت پانچ جگہوں پر اس کا ترجمہ بھجواتا ہے اور یہ کون کون سی جگہیں ہوتی ہیں اس کے بارے میں اس وقت کچھ بتا نہیں سکتا کیونکہ یہ تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔‘
سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد کے مطابق ڈپلومیٹک کیبل کو سفارتخانہ اپنے دفتر خارجہ بھجواتا ہے اور اس میں مختلف کیٹگریز ہوتی ہیں۔
’ایک کیٹگری ہوتی ہے جس میں معلومات صرف سیکرٹری خارجہ کو ہی بھجوائی جاتی ہیں۔ دوسری کیٹگری میں سیکرٹری خارجہ، وزیر خارجہ اور وزیراعظم کو کاپی دی جاتی ہے جبکہ ایک کیٹگری ایسی بھی ہوتی ہے جس کی کاپی ملک کے سپہ سالار، وزیراعظم، صدر، وزیر خارجہ اور سیکرٹری خارجہ کو اکٹھی بھجوائی جاتی ہے۔‘
کیا سفارتی سطح پر ’دھمکی آمیز‘ خط موصول ہوتے ہیں؟
سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد کے مطابق ’کسی بھی ملک کے سفیر کو بلا کر یہ بات کہنا کہ ہمیں آپ کی یہ پالیسی پسند ہے اور یہ ناپسند ہے، یہ ایک معمول کی بات ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ماضی میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے، زبانی اور تحریری طور پر بھی ایسا ہوتا رہا ہے۔ جب نواز شریف دور میں، میں سیکرٹری خارجہ تھا تو اس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن نواز شریف کو دھمکی آمیز خط لکھا کرتے تھے۔‘
شمشاد احمد کے بقول ‘امریکہ نے 1998 میں نواز شریف کو متعدد خطوط لکھ کر کہا تھا کہ اگر ایٹمی دھماکے کیے تو ہم سے برا کوئی نہیں ہوگا۔‘
شمشاد احمد نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’کسی ملک کا صدر یا وزیرخارجہ اپنے ہم منصب کو خط لکھتا ہے تو یہ معمول کی بات ہے، اگر کوئی خط یا مراسلہ آتا ہے تو اس کا جواب بھی تحریری طور پر لکھ کر دیا جاتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’جن ممالک کے پاس وسائل ہوتے ہیں وہ اس قسم کی مداخلت کرتے ہیں، یہ سفارتی پروٹوکولز کے خلاف ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ مداخلت ہوتی ہے۔ امریکہ کے انتخابات میں روس مداخلت کرتا ہے اس لیے اس قسم کی مداخلت کرنے کی کوشش ضرور ہوتی ہے۔‘
سابق سیکرٹری خارجہ نے مزید بتایا کہ ‘اس وقت کے وزیر خزانہ سرتاج عزیز کہتے تھے کہ دھماکے نہیں کرنے چاہییں ہمارے لیے مسائل ہوں گے، تو اس قسم کی دھمکیاں دی جاتی ہیں اور اپنی پالیسی تبدیل کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جاتا رہا ہے۔‘
سابق سیکرٹری خارجہ نے حالیہ صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’اس وقت میرا خیال ہے کہ عمران خان کو پیغام دیا گیا ہے کہ اپوزیشن جو عدم اعتماد کی تحریک لا رہی ہے اس میں ہماری ہمدردیاں اپوزیشن کی ساتھ ہوں گی۔ وزیراعظم اس معاملے کو عوام کے سامنے لائے ہیں جبکہ ماضی میں اس قسم کے مراسلے کا جواب تحریری طور پر دیا جاتا تھا۔‘