Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی تو کیا وزیراعظم نگران کے طور پر کام کر سکتے ہیں؟

عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں نئے وزیراعظم کے انتخاب کے لیے وقت کی قید کا تذکرہ آئین میں موجود نہیں۔ فوٹو: اے پی پی
پاکستان کی قومی اسمبلی میں اتوار کو اپوزیشن کی جانب سے پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہوگی اور اگر اپوزیشن ایوان میں 172 یا زائد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی تو وزیراعظم عمران خان عہدے سے سبکدوش ہو جائیں گے۔
 پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 95 کے مطابق تحت کسی بھی وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے موجودہ اسمبلی کی کُل تعداد کی سادہ اکثریت کی حمایت درکار ہوتی ہے۔ اس وقت موجودہ اسمبلی کے کل ممبران کی تعداد  342 ہے تاہم ایک رکن خیال زمان کے انتقال کے باعث 341 ارکان موجود ہیں۔
تحریک عدم اعتماد ناکام ہو جانے کی صورت میں وزیراعظم عمران خان اپنے عہدے پر برقرار رہیں گے اور قومی اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت تک کے لیے معطل ہو جائے گا۔

تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے فورا بعد کون نگران وزیراعظم ہوگا؟

تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں وزیراعظم عمران خان اپنے عہدے سے فارغ ہو جائیں گے اور اس کے ساتھ ہی ان کی کابینہ بھی تحلیل ہو جائے گی۔ ویسے تو آئین کے آرٹیکل 94 کے مطابق صدر مملکت، وزیراعظم کی مدت پوری ہونے کے بعد اس کے جانشین کی نامزدگی تک اسے کام جاری رکھنے کا کہہ سکتا ہے تاہم ماہر قانون و آئین حامد خان کے مطابق چونکہ پاکستان میں آج تک کبھی وزیراعظم کو تحریک عدم اعتماد کے تحت نہیں ہٹایا جا سکے اس لیے ابہام موجود ہے کہ کیا اس طرح پارلیمنٹ کی جانب سے ہٹائے جانے کے بعد وزیراعظم نئے چیف ایگزیکٹو کی تعیناتی تک اپنے عہدے پر کام کر سکتا ہے؟
حامد خان کے مطابق اس صورت میں صدر عارضی انتظام کے طور پر کسی بھی رکن اسمبلی کو بطور وزیراعظم کام کرنے کا کہہ سکتے ہیں۔

اپوزیشن جماعتوں نے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو وزیراعظم کے عہدے کا امیدوار نامزد کیا ہے۔ فوٹو: اے پی پی

ماہر پارلیمانی امور اور پاکستان انسٹیٹیوٹ آف پارلیمینٹری سروسز کے سابق سربراہ ظفراللہ خان کے مطابق ماضی قریب میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ وزیراعظم کا عہدہ چند دنوں کے لیے خالی رہا ہو۔ انہوں نے مثال دی کہ جب 19 جون 2012 کو وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو سپریم کورٹ کی جانب سے نااہل قرار دیا گیا تو اگلے چند دن تک ملک میں وزیراعظم کا عہدہ خالی رہا تھا اور 22 جون کو وزیراعظم پرویز اشرف کا انتخاب کیا گیا ۔ اسی طرح جب 2017 میں وزیراعظم نواز شریف کو سپریم کورٹ نے نااہل کیا تو اس وقت بھی شاہد خاقان عباسی کے انتخاب تک عہدہ خالی رہا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ آئین میں قائمقام صدرکی تو گنجائش ہے مگر قائمقام وزیراعظم کا کوئی تصور نہیں۔ تاہم ان کے مطابق وزیراعظم کا عہدہ زیادہ دیر تک خالی نہیں رکھا جا سکتا کیونکہ اسی کے پاس نیوکلئیر کمانڈ ہوتی ہے اور ملکی معاملات چیف ایگزیکٹو نے ہی چلانے ہوتے ہیں۔ 
ظفراللہ خان نے کہا کہ اگر آئین سے حل ڈھونڈا جائے تو آرٹیکل 94 کے مطابق وزیراعظم عمران خان کو صدر عارف علوی عارضی طور پر کام جاری رکھنے کا کہہ سکتے ہیں تاہم تجزیہ کاروں کے مطابق اپوزیشن کے اعتراض کے باعث اس کا امکان کم ہوگا۔

نئے وزیراعظم کا انتخاب کتنے دنوں میں ہو گا؟

حامد خان کے مطابق تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے فورا بعد قومی اسمبلی کا اجلاس ختم ہو جائے گا۔ تاہم اس کے بعد صدر کو چاہیے کہ ایک دو دن میں نئے وزیراعظم  کے انتخاب کے لیے قومی اسمبلی کا سیشن بلائے۔
ان کا کہنا تھا کہ عام انتخابات کے بعد وزیراعظم کے انتخاب کا طریق کار اور مدت تو آئین میں موجود ہے مگر اس طرح کی صورتحال میں مدت مقرر نہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ ایسی صورت میں صدرِ مملکت کے لیے لازم ہو گا کہ وہ فوری طور پر قومی اسمبلی کا اجلاس بلائیں جس میں نئے قائدِ ایوان کا انتخاب ہو۔

وزیراعظم کے خلاف کامیابی کی صورت میں اپوزیشن سپیکر کے خلاف بھی عدم اعتماد کی تحریک لا سکتی ہے۔ فوٹو: اے پی پی

پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹیو ڈیولپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کے سربراہ احمد بلال محبوب کے مطابق قومی اسمبل قواعد کے مطابق کسی بھی وجہ سے اگر وزیراعظم کا عہدہ خالی ہو جائے تو قومی اسمبلی اپنی ہر کارروائی چھوڑ کر وزیراعظم کا انتخاب سب سے پہلے کرے گی البتہ یہاں بھی نئے وزیراعظم کے انتخاب کے لیے وقت کی قید کا تذکرہ موجود نہیں۔
حامد خان کے مطابق صدر کی جانب سے اجلاس طلب کیے جانے پر وزیراعظم کا انتخاب ایک یا دو دن میں بھی ہو سکتا ہے۔ اس کے لیے امیدوار کو رکن اسمبلی نامزد کر سکتا ہے اور ممبر اسمبلی ہی تائید کنندہ بن سکتا ہے۔ امیدواروں کی نامزدگی کے بعد سپیکر ووٹنگ کے وقت کا تعین کرے گا۔
نئے وزیراعظم کا انتخاب اوپن بیلٹ سے ہو گا اور ارکان کو شو آف ہینڈز یا تقسیم ہو کر اپنے ووٹ کا اظہار کرنا ہوگا۔ نئے وزیراعظم کو منتخب ہونے کے لیے ایوان کی اکثریت یعنی 172 ووٹ لینا ہوں گے۔ اس پورے عمل کی نگرانی سپیکر قومی اسمبلی کو کرنا ہوگی۔
 یاد رہے کہ اپوزیشن پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ اس کی طرف سے شہباز شریف ہی وزارت عظمیٰ کے امیدوار ہوں گے۔
نئے وزیراعظم کا انتخاب ہوتے ہی جو لوگ حکومت میں تھے وہ اپوزیشن بینچز پر چلے جائیں گے اور اپوزیشن والے حکومتی بینچز پر آجائیں گے۔ پھر نئی کابینہ تشکیل دی جائے گی۔
ماہرین کے مطابق اگر عمران خان اعتماد کا ووٹ نہ لے سکے تو پھر تحریکِ انصاف سے تعلق رکھنے والے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے خلاف بھی تحریکِ عدم اعتماد آ سکتی ہے اور مستقبل میں صدر عارف علوی کو بھی تبدیل کیا جا سکتا ہے۔

شیئر: