Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ڈپٹی سپیکر کا سرپرائز: تحریک عدم اعتماد کا ڈراپ سین

اتوار کو قومی اسمبلی کا اجلاس پاکستان کی تاریخ میں اہم ترین اجلاسوں میں شمار کیا جا رہا تھا جس نے وزیراعظم عمران خان کے مستقبل کا فیصلہ کرنا تھا اس لیے سب کی نظریں ریڈ زون میں واقع پارلیمنٹ ہاؤس پر تھیں۔
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے سنیچر کو احتجاج کی کال کے بعد پارلیمنٹ کے اندر اور ریڈ زون کے باہر کسی ممکنہ گڑ بڑ سے بچنے کے لیے سخت سکیورٹی انتظامات کیے گئے تھے اور صرف متعلقہ افراد کو مارگلہ روڈ کے راستے سے جانے کی اجازت تھی۔
اجلاس ساڑھے گیارہ بجے ہونا تھا مگر صبح نو بجے ہی اپوزیشن ارکان اسمبلی پارلیمنٹ لاجز سے پیدل پہنچنا شروع ہو گئے۔ سب کے چہروں پر خوشی کے تاثرات تھے اور وہ پرجوش نظر  آرہے تھے۔
اجلاس کی صدارت مشترکہ طور پر مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف، سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری، جے یو آئی کے مولانا اسد محمود، باپ پارٹی کے خالد مگسی اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اختر مینگل نے کی۔
پارلیمنٹ ہاؤس کے کمیٹی روم نمبر دو میں اپوزیشن کا پارلیمانی اجلاس ہوا تو اس میں 160 سے زائد ارکان موجود تھے۔ ملک بھر کے میڈیا کے نمائندے اس کمرے کے باہر موجود رہے۔
وہاں موجود پیپلز پارٹی رہنما سعید غنی سے بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ نمبر نہ صرف پورے ہیں بلکہ زیادہ ہیں۔

ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے عدم اعتماد کی قرارداد کو غیر آئینی قرار دے کر مسترد کر دیا تھا۔ (فوٹو: پی آئی ڈی)

انہوں نے بتایا کہ اپوزیشن نے سپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد اس لیے پیش کی ہے تاکہ وہ اسمبلی کے اجلاس کو برخاست کرکے نئے وزیراعظم کے انتخاب کے عمل کو التوا نہ دے دیں۔ گویا اپوزیشن نے اس آپشن کی تیاری کر رکھی تھی۔
توقع تھی کہ حکومتی ارکان اور وزیراعظم عمران خان بھی اجلاس میں شریک ہوں گے اسی وجہ سے عمران خان کے پارلیمنٹ ہاؤس میں واقع دفتر کے باہر سکیورٹی بھی سخت تھی تاہم ان کا چیمبر خالی رہا اور کچھ دیر بعد اس سے سکیورٹی بھی ہٹا لی گئی۔
حکومتی ارکان کی اجلاس سے قبل کوئی پارلیمانی پارٹی میٹنگ بھی نہیں ہوئی تاہم وہ براہ راست ایوان میں پہنچنا شروع ہو گیا۔ اپوزیشن ارکان بھی قومی اسمبلی ہال میں گیارہ بجے ہی پہنچنا شروع ہو گئے تھے۔
ایوان میں خاصی ہلچل تھی اور اپوزیشن ارکان ایک دوسرے سے خوش گپیوں میں مصروف تھے شاید انہیں جیت کا پورا یقین تھا۔ اپوزیشن کے اتحادیوں کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کے منحرف ارکان بھی اپوزیشن لیڈر کے چیمبر اور راہداریوں میں موجود رہے۔

اپوزیشن کے تمام ارکان نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

صحافیوں اور مہمانوں کی گیلریاں بھی کھچا کھچ بھری ہوئی تھیں۔ پیپلز پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو کی بہن آصفہ بھٹو، وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخواہ محمود خان اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے علاوہ اپوزیشن کے زیادہ تر سینیٹرز اور رہنما بھی اجلاس دیکھنے آئے تھے۔
ابھی ساڑھے گیارہ نہیں ہوئے تھے کہ ایوان میں ایک دم تالیاں بجنا شروع ہوئی اور مسلم لیگ ق کے رہنما طارق بشیر چیمہ اپنی ساتھی ایم این اے چوہدری سالک کے ساتھ اپوزیشن کی کرسیوں کی طرف چلے گئے۔
حکومتی بینچز سے لوٹا لوٹا کی آوازیں آنا شروع ہو گئیں تاہم یہ سب کے لیے سرپرائز تھا کہ چوھدری خاندان میں بھی تقسیم ہو گیا اور پرویز الہی کے پی ٹی آئی کے ساتھ جانے کے اعلان کے باجود چوہدری سالک حسین اپوزیشن کے ساتھ چلے گئے۔

’حکومتی صفوں پر خواتین ایم این ایز شاید آنے والے سرپرائز سے لاعلم تھی‘ (فوٹو: پی ٹی آئی)

اجلاس میں ایک اور سرپرائز اس وقت دیکھنے کو ملا جب آصف زرداری اٹھ کر حکومتی بنچز پر پہنچ گئے اور وہاں موجود وزیرخزانہ شوکت ترین سے مصافحہ کیا اور کچھ دیر بات کرتے رہے۔ پریس گیلری سے آواز آئی کہ لگتا ہے اپوزیشن کی حکومت میں بھی ترین ہی وزیرخزانہ ہوں گے۔
حکومتی صفوں پر خواتین ایم این ایز شاید آنے والے سرپرائز سے لاعلم تھیں اس لیے وہ اداس لگ رہی تھیں یہی حال زیادہ تر ایم این ایز کا تھا جو تھکے تھکے قدموں ایوان میں آئے۔ تاہم چند ایم این ایز نے تحریک انصاف کے پرچموں پر مشتمل پٹیاں بازو پر باندھی ہوئی تھیں۔
اپوزیشن کی صفوں میں سے مسلم لیگ کے ایم این اے کھیل داس نواز شریف کی تصویر ایوان میں لائے ہوئے تھے۔ اس پوٹریٹ کے ساتھ کئی لوگوں نے تصاویر بنائیں۔
جب اجلاس شروع ہوا تو حکومتی بنچز پر 130 ارکان موجود تھے جن میں تین ایڈوائزر بھی شامل تھے جو اسمبلی کے ممبر نہیں اس لیے ووٹنگ کے عمل میں شریک نہیں ہو سکتے تھے۔
اپوزیشن بینچوں پر 176 ارکان موجود تھے جو تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے درکار 172 ووٹوں سے زائد تھے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن ارکان خوش گپیوں میں مصروف رہے۔
جب بارہ بج کر آٹھ منٹ پر اجلاس شروع ہوا تو سپیکر اسد قیصر کے بجائے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے کرسی صدارت سنبھالی۔
جب تلاوت، نعت اور قومی ترانے کے بعد اجلاس کی باقاعدہ کاروائی شروع ہوئی تو سپیکر نے وزیرقانون فواد چوہدری کو دعوت خطاب دے دی۔

مسلم لیگ کے ایم این اے کھیل داس نواز شریف کی تصویر ایوان میں لائے ہوئے تھے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

فواد چوہدری نے اپنے خطاب میں اپوزیشن پر غیر ملکی سازش کا الزام عائد کیا اور ان کے خلاف آئین کے آرٹیکل پانچ اے کے تحت کاروائی کی درخواست کی۔
ڈپٹی سپیکر نے فواد چوہدری کی بات تسلیم کرتے ہوئے پُرزور آواز میں تحریک عدم اعتماد کو مسترد قرار دے کر اسمبلی کا اجلاس برخواست کر دیا اور تیز تیز قدم اٹھا کر ہال سے باہر نکل گئے۔
چند سیکنڈز کے دورانیے میں جو ہوا اس سے اپوزیشن واقعی سرپرائز ہو گئی تاہم حکومتی بینچز نے زوردار نعروں سے سپیکر کے ڈائس کا گھیراؤ کر لیا۔
لگتا ہے وزیراعظم نے اپنے سرپرائز سے صرف چند وزرا کو آگاہ کیا تھا اس لیے باقی حکومتی ارکان کو پتا چلا کہ عمران خان عارضی طور پر ہی سہی بچ گئے ہیں تو ان کی خوشی دیدنی تھی۔ اداس چہرے ایک دم کھل اٹھے۔ پرجوش ارکان نے اپوزیشن کے خلاف اور عمران خان کے حق میں نعرے بازی شروع کر دی۔ پارٹی کی خواتین اراکین، زرتاج گل، کنول شوزب اور ملائیکہ بخاری کی قیادت میں نعرے لگا رہی تھیں کہ ’امریکہ کا جو یار ہے غدار ہے غدار ہے‘ ’کون بچائے گا پاکستان عمران خان عمران‘ خان‘  ’مرد مومن مرد غازی۔ عمران نیازی عمران نیازی۔‘

اسمبلی اجلاس کے وقت پاکستان تحریک انصاف کے سپورٹرز پارلیمنٹ کے باہر موجود تھے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اس دوران اپوزیشن نے اجلاس سے جانے سے انکار کر دیا اور ایاز صادق نے سپیکر کی کرسی پر جا کر اپنے طور پر اجلاس کی کاروائی شروع کر دی۔ پریس گیلری میں بھی سب ایک دوسرے سے پوچھنا شروع ہو گئے کہ اب کیا ہوگا؟ ایک سینیئر صحافی کا کہنا تھا کہ اپوزیشن سارے آئینی آپشنز کی تیاری کر کے آئی تھی مگر انہیں نہیں پتا تھا کہ حکومت کوئی غیر آئینی آپشن بھی استعمال کر سکتی ہے۔
بعد میں اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے سابق ڈپٹی سپیکر مرتضیٰ جاوید عباسی نے کہا کہ قاسم سوری نے جو رولنگ دی ہے وہ خلاف آئین ہے سپیکر کو ایسا کوئی اختیار نہیں کہ کسی آئینی عمل میں رکاوٹ ڈالے۔ اس لیے اپوزیشن اس معاملے پر سپریم کورٹ جائے گی اور جب تک فیصلہ نہیں آتا یہاں ہی احتجاجی اجلاس کیا جائے گا۔

شیئر: