حکومت پیکا ترمیمی آرڈیننس واپس لینے کے لیے تیار ہے: اٹارنی جنرل
حکومت پیکا ترمیمی آرڈیننس واپس لینے کے لیے تیار ہے: اٹارنی جنرل
جمعرات 10 مارچ 2022 10:24
اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ ’پیکا ترمیمی آرڈیننس کو اگر اس شکل میں مسلط کیا جائے تو ڈریکونین قانون ہوگا‘ (فوٹو: اے ایف پی)
اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیکا ترمیمی آرڈیننس کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا ہے کہ ’حکومت ترمیمی آرڈیننس واپس لینے کے لیے تیار ہے۔‘
جمعرات کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پیکا ترمیمی آرڈیننس کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی۔
وفاق کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل اور ڈپٹی اٹارنی جنرل، ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ جبکہ درخواست گزاروں کی جانب سے ایمان مزاری، عثمان وڑائچ اور دیگر عدالت میں پیش ہوئے۔
عدالت نے ڈائریکٹر ایف آئی اے کو وفاقی وزیر مراد سعید کی درخواست پر درج ایف آئی آر پڑھنے کی ہدایت کی۔
عدالت نے استفسار کیا کہ ’جو کہا گیا اس پر پیکا کی کونسی دفعہ لگتی ہے؟‘ جس پر ڈائریکٹر ایف آئی اے نے بتایا کہ ’ملزم نے یوٹیوب پر بھی اسی سے متعلق پروگرام کیے۔‘
عدالت نے ڈائریکٹر ایف آئی اے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر یوٹیوب پر پروگرام ہوئے تو وہ آپ کی اس ایف آئی آر سے متعلق نہیں۔ آپ کے خلاف ایف آئی آر کیوں درج نہ کی جائے کہ آپ نے وزیراعظم کی شہرت کو نقصان پہنچایا ہے۔‘
عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ قانون کس کے تحفظ کے لیے بنا ہے؟ درخواست گزاروں نے سیکشن 20 کو چیلنج کیا ہے۔‘
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ’اس معاملے پر وزیراعظم سے تفصیلی ملاقات ہوئی ہے۔ پیکا ترمیمی آرڈیننس کو اگر اس شکل میں مسلط کیا جائے تو ڈریکونین قانون ہوگا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’مین سٹریم میڈیا یا پرنٹ میڈیا کو پیکا ایکٹ کے ذریعے ریگولیٹ کرنے کی ضرورت نہیں، حکومت پیکا ترمیمی آرڈیننس واپس لینے کے لیے تیار ہے۔‘
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’سیکشن 20 میں کچھ چیزوں کا اٹارنی جنرل کی حیثیت سے بھی دفاع نہیں کروں گا۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)
اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ ’اس معاملے کو واپس وفاقی کابینہ بھیج کر متعلقہ افراد سے رائے لی جا سکتی ہے، ایک ٹائم فریم رکھیں اور اس میں ہم اس ایکٹ پر کام کریں گے۔ یہ کیس ہم سب کی غلطی سے ہوا۔‘
عدالت نے باور کرایا کہ ’یہ عدالت چاہتی ہے کہ اس کیس کو مثالی کیس بنایا جائے، فوجداری مقدمات پبلک آفس ہولڈر کے لیے نہیں ہونے چاہییں۔‘
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ’سوشل میڈیا کے حوالے سے ہمیں یا کسی پبلک آفس ہولڈر کو فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں، میرے خلاف سوشل میڈیا پر کیا کچھ نہیں چلایا جا رہا۔‘
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’سیکشن 20 میں کچھ چیزوں کا اٹارنی جنرل کی حیثیت سے بھی دفاع نہیں کروں گا۔‘
انہوں نے عدالت سے آرڈیننس معطل نہ کرنے کی استدعا کی جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’پارلیمنٹ نے اس قانون کو بنایا اور وہ ہی اس قانون کو دیکھ سکتی ہے۔ وفاقی حکومت تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ بیٹھ کر طے کرے گی۔‘
اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ’وزیراعظم سیاسی معاملات میں مصروف ہیں، یہ معاملات ختم ہونے دیں۔‘
اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایف ائی اے کو پیکا قانون کی دفعہ 20 کے تحت گرفتاریوں سے روکتے ہوئے کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کردی۔