Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پنجاب کا سیاسی معرکہ کون جیتے گا اور اسمبلی میں نمبر گیم کیا ہے؟

اپوزیشن نے نجی ہوٹل میں اجلاس بلا کر 199 ارکان کی حمایت سے حمزہ شہباز کو علامتی وزیر اعلٰی منتخب کیا (فائل فوٹو: ٹوئٹر) 
وفاق میں اپوزیشن کی جانب سے تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد پنجاب میں نئے وزیر اعلٰی کے انتخاب کے لیے میدان 16 اپریل کو سجے گا۔ 
بظاہر ایسے لگتا ہے کہ غیر ضروری طوالت اختیار کر جانے والا وزیر اعلٰی پنجاب کا انتخاب اب کسی کروٹ ضرور بیٹھے گا۔ 
ملک کے آبادی کے لحاظ سے سے بڑے صوبے میں وزیر اعلٰی کے انتخاب میں اتنی تاخیر ہوئی کیوں؟ اس کے اسباب جاننے کے لیے گذشتہ دو ہفتوں میں ہونے والے واقعات پر ایک نظر دوڑاتے ہیں۔ 
قومی اسمبلی میں اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد آنے کے بعد پنجاب میں بھی عثمان بزدار کے خلاف تحریک عدم اعتماد داخل کردی گئی۔ 
اپوزیشن رہنماؤں کے مطابق انہوں نے سپیکر پرویز الٰہی کو ہی اپنا امیدوار نامزد کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ 
لیکن صورت حال اس وقت یکسر بدل گئی جب پرویز الٰہی نے عمران خان سے ایک ملاقات کے بعد تحریک انصاف کا امیدوار بننے کا اعلان کردیا۔ 
اس اعلان کے بعد یکم اپریل کو عثمان بزدار کا استعفٰی گورنر پنجاب نے منظور کرلیا۔ اور فوراً ہی گورنر نے دو اپریل کو نئے وزیراعلٰی کے انتخاب کے لیے اسمبلی کا اجلاس بلا لیا۔ 
اس مختصر اجلاس کی صدارت سپیکر پرویزالٰہی نے کی اور اگلے ہی روز یعنی 3 اپریل کو الیکشن کروانے کا اعلان کردیا۔ 
24 گھنٹوں کے اندر ہی تحریک انصاف کے دو بڑے گروپوں علیم خان اور جہانگیر خان ترین گروپ نے اپوزیشن کے امیدوار حمزہ شہباز کی حمایت کا اعلان کردیا۔ 
تین اپریل کو مگر یہ انتخاب نہ ہوسکا جب ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری اسمبلی کا اجلاس 6 اپریل تک اس وجہ سے ملتوی کردیا کہ خواتین اراکین کے مابین جھگڑا ہوگیا تھا۔

علیم خان اور جہانگیر ترین کے گروپ نے حمزہ شہباز کی حمایت کا اعلان کیا تھا (فائل فوٹو: ٹوئٹر)

اسی رات ڈپٹی سپیکر نے نیا نوٹی فیکیشن جاری کرتے ہوئے اجلاس کو 16 اپریل تک ملتوی کردیا، لیکن اگلے روز دوست مزاری نے اپنا نوٹی فیکیشن واپس لینے کی کوشش کی اور سادہ کاغذ پر اجلاس دوبارہ 6 اپریل کو ہی بلا لیا۔
تاہم یہ اجلاس نہ ہوسکا اور اسمبلی کے عملے نے ڈپٹی سپیکر سمیت کسی رکن کو اسمبلی کے اندر نہ جانے دیا بلکہ سپیکر چوہدری پرویز الٰہی نے اپنے ہی ڈپٹی سپیکر کے تمام اختیارات ایک حکم نامے کے ذریعے ختم کردیے۔  
اپوزیشن نے ایک نجی ہوٹل میں علامتی اجلاس بلا کر اپنی طاقت ظاہر کی اور 199 اراکین کی حمایت سے حمزہ شہباز کو علامتی وزیر اعلٰی منتخب کرلیا۔ 
اس کے بعد اپوزیشن نے الیکشن 16 اپریل سے پہلے کروانے کے لیے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کرلیا۔ تاہم عدالت نے جلدی انتخاب کی استدعا رد کرتے ہوئے 16 تاریخ کو ہی انتخاب کروانے کی ہدایت کردی۔ 
البتہ ڈپٹی سپیکر کے کھوئے ہوئے اختیارات واپس کرتے ہوئے انہیں ہی الیکشن کروانے کی ذمے داری سونپ دی ہے۔ 

پنجاب کی وزارت اعلٰی کا فیصلہ 16 اپریل کو ہوگا (فائل فوٹو: ٹوئٹر)

پنجاب اسمبلی میں نمبر گیم کیا ہے؟
پنجاب میں حکومت بنانے کے لیے اسمبلی میں 186 ارکان کی حمایت حاصل ہونا ضروری ہے۔ اس سے پہلے تحریک انصاف نے مسلم لیگ ق کی مدد سے 194ووٹوں سے عثمان بزدار کو وزیر اعلٰی منتخب کروایا تھا، تاہم اس بار دو بڑے گروپوں کے الگ ہونے سے صورت حال مختلف ہوگئی ہے۔ 
پنجاب اسمبلی کا ایوان 371 اراکین پر مشتمل ہے جبکہ حکومت بنانے کے لئے کسی بھی پارٹی کو 186 اراکین کی حمایت حاصل ہونا ضروری ہے۔
 سردار عثمان بزدار 194 ووٹوں سے وزیراعلٰی پنجاب منتخب ہوئے تھے۔  ق لیگ نے اپنے 10 ووٹوں سے ان کو سپورٹ کیا تھا جس کے بدلے میں پارٹی کے پنجاب چیپٹر کے صدر پرویز الٰہی کو پنجاب اسمبلی کا سپیکر بنا دیا گیا تھا۔
پنجاب اسمبلی کے اندر پارٹی پوزیشن یہ ہے کہ حکومتی اتحاد میں تحریک انصاف کے پاس 183 اراکین ہیں ق لیگ کے پاس 10 ارکان ہیں جب کہ اپوزیشن اتحاد میں مسلم لیگ ن کے پاس 165 اراکین پیپلز پارٹی کے پاس سات اور ایک رکن راہ حق پارٹی کا ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق وفاق میں شہباز شریف کی بطور وزیر اعظم کامیابی سے بھی پنجاب کا انتخاب متاثر ہوگا اور چوہدری پرویز الٰہی کے لئے مشکلات بڑھ گئی ہیں۔ 

شیئر: