لاہور ہائی کورٹ نے پنجاب اسمبلی کا اجلاس 16 اپریل سے قبل کروانے سے متعلق حمزہ شہباز کی درخواست مسترد کر دی ہے۔
بدھ کو حمزہ شہباز شریف کی درخواست پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے عدالت عالیہ نے کہا کہ وزیر اعلی پنجاب کا انتخاب شیڈول کے مطابق 16 اپریل کو ہی ہو گا۔
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے تین صفحات پر مشتمل تحریری فیصلے میں سپیکر کی جانب سے ڈپٹی سپیکر کے اختیارات واپس لینے کا نوٹیفکیشن کلعدم قرار دیتے ہوئےحکم دیا کہ اجلاس کی صدارت ڈپٹی اسپیکر دوست مزاری کریں گے۔
مزید پڑھیں
-
’اوورسیز کے ووٹ کے حق کے خلاف نہیں، طریقہ کار سے اختلاف‘Node ID: 660821
-
کیا حمزہ شہباز اور علیم خان کے درمیان جھگڑا ہوا؟Node ID: 660891
عدالت نے مزید حکم دیا کہ کسی بھی رکن اسمبلی کو ووٹ کے حق سے محروم نہ رکھا جائے۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس امیر بھٹی نے حمزہ شہباز اور دوست مزاری کی الگ الگ درخواستیں نمٹا دیں۔
عدالت نے فیصلے میں لکھا کہ حمزہ شہباز کی وزیر اعلی پنجاب کے لیے انتخاب کے لیے اجلاس شیڈول سے پہلے کرانے کی درخواست مسترد کی جاتی ہے۔
عدالت نے حکم دیا کہ ڈپٹی اسپیکر دوست مزاری 16 اپریل کے اجلاس کی صدارت کریں گے اور وزیراعلی کے انتخاب کے لیے رائے شماری کرائیں گے۔
عدالت نے فیصلے میں یہ بھی ہدایت کی کہ کسی بھی رکن اسمبلی کو ووٹ کے حق سے محروم نہ رکھا جائے۔
’تمام فریقین اور عملہ غیر جانبداری سے اپنے فرائض انجام دیں گے۔‘ عدالت نے ہدایت کی کہ 15 اپریل صبح گیارہ بجے تک سیکرٹری پنجاب اسمبلی، اسمبلی میں توڑ پھوڑ کی مرمت مکمل کروائیں۔

دوسری جانب مسلم لیگ ق نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کرنے کا اعلان کر دیا۔
وکیل عامر سعید نے کہا کہ سپیکر کے اختیارات کا نوٹفکیشن کلعدم قرار دینے کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کریں گے۔
اپوزیشن لیڈر اور وزارت اعلیٰ کے امیدوار حمزہ شہباز نے درخواست دائر کی تھی کہ صوبے میں جان بوجھ کر وزیر اعلیٰ کے انتخاب میں رکاوٹیں کھڑی کی گئی ہیں۔
کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس امیر بھٹی نے ریمارکس دیے تھے کہ ’اگر فریقین کسی نتیجے پر نہیں پہنچیں گے تو عدالت خود ہی تنیجہ اخذ کر لے گی۔‘
سماعت کے دوران مسلم لیگ ن کے وکیل نے پیش کش کی تھی کہ اسمبلی میں چار ایسے ارکان ہیں جن کا کسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان پر مشتمل پینل تشکیل دے دیا جائے۔
مسلم لیگ ق کے وکلا نے اعتراض کیا تھا اور نشاندہی کی کہ جن چار ارکان اسمبلی کے نام لیے گئے ہیں ان کی سیاسی وابستگی ہے۔
