پاکستان میں انسانی حقوق کی سابق وزیر اور تحریک اںصاف کی رہنما شیریں مزاری نے کہا ہے کہ عمران خان نے بطور وزیراعظم فوج کو ’سیاسی ڈیڈلاک کے خاتمے‘ کے لیے مدد کا نہیں کہا تھا۔
جمعے کو ٹوئٹر پر ایک بیان میں سابق وزیر نے کہا کہ ’مجھے یہ واضح کرنے دیں۔ اور میں یہ آن دی ریکارڈ کہتی ہوں کہ وزیراعظم نے سیاسی ڈیڈلاک کے خاتمے کے لیے فوج کو مدد کے لیے نہیں کہا تھا۔‘
مزید پڑھیں
-
ڈی جی آئی آیس پی آر کی نیوز بریفنگ پر سیاست دان کیا کہتے ہیں؟Node ID: 661236
انہوں نے کہا کہ ’فوج نے اس وقت کے وزیر دفاع پرویز خٹک کے ذریعے ملاقات کا کہا اور پھر تین تجاویز بڑھائیں کہ وزیراعظم مستعفی ہوں یا عدم اعتماد کا سامنا کریں یا نئے انتخابات کرائے جائیں۔‘
شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ ’عمران خان کیوں مستعفی ہونے کا آپشن دیتے جبکہ وہ پہلے ہی واضح طور پر بار بار کہہ چکے تھے کہ وہ استعفیٰ نہیں دیں گے۔ عمران خان عدم اعتماد کی تحریک کو بھی غیرملکی سازش قرار دے کر پہلے ہی مسترد کر چکے تھے۔ ایسی صورت میں وہ کیوں یہ آپشنز دیتے۔‘
خیال رہے کہ پاکستان کی فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے جمعرات کو ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ سابق وزیراعظم کے سامنے تین آپشن فوج کی قیادت نے نہیں رکھے تھے۔
Let me be clear -- I am stating on record PM did not call mly for help on "breaking pol deadlock". The mly sought the mtg thru then Def Minister Khattak & they put forward the 3 proposals of either PM resigning or taking part in VNC or fresh elections! #امپورٹڈ_حکومت_نامنظور
— Shireen Mazari (@ShireenMazari1) April 15, 2022
اس سوال پر کہ کیا اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کے سامنے کوئی مطالبات رکھے تھے اور اگر رکھے تھے تو وہ کیا تھے؟ میجر جنرل بابر افتخار نے جواب میں کہا کہ ’وہ آپشنز اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے نہیں رکھی گئی تھیں۔ پرائم منسٹر آفس کی جانب سے چیف آف آرمی سٹاف سے رابطہ کیا گیا تھا، یہ ڈیڈلاک جب برقرار تھا کہ اس میں کوئی بیچ بچاؤ کی بات کریں۔‘
فوج کے ترجمان نے کہا تھا کہ ’یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں کی قیادت اُس وقت آپس میں بات کرنے پر تیار نہیں تھی۔ تو آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی پرائم منسٹر ہاؤس گئے اور وہاں پر ان کے (وزیراعظم) کے دوسرے رفقا بھی تھے، تو وہی بیٹھ کر یہ تین آپشنز ڈسکس ہوئے کہ کیا کیا ہو سکتا ہے۔‘
