Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں چینی باشندوں پر حملے، کب کب اور کہاں نشانہ بنایا گیا؟

بی ایل اے کے مجید بریگیڈ کا نام پہلی بار دسمبر 2011ء میں سامنے آیا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی
ابتدائی تحقیقات میں یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ منگل کو کراچی یونیورسٹی میں ہونے والے خودکش بم حملے کا ہدف چینی باشندے تھے۔
پاکستان میں چینی باشندوں پر یہ پہلا حملہ نہیں اس سے پہلے بھی کراچی، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں چینی انجینئرز ،ماہرین اور تنصیبات کو نشانہ بنایا جا چکا ہے۔
حالیہ برسوں میں چینی باشندوں پر حملوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے اور ان میں سے زیادہ تر حملوں کی ذمہ داری کالعدم  بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی ہے جو بلوچستان میں سرگرم ہیں اور اس طرز کے حملوں کے لیے اس تنظیم نے اپنے روایتی طریقہ کار سے ہٹ کر حکمت عملی اپنائی  ہے۔
حملے کی ذمہ داری قبول کرنے والی تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کے ’مجید بریگیڈ ‘سے متعلق بتانے سے پہلے پاکستان میں چینی باشندوں پر حملوں کی تاریخ کا ذکر کرتے ہیں۔
پاکستان میں چینی ماہرین اور کارکنان زیادہ تر کانکنی، معدنیات، توانائی، ٹیلی کمیونیکشن اور تعمیراتی منصوبوں پر کام کر رہے ہیں۔ ملک میں رہائش پذیر چینی باشندوں کی تعداد میں چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) پراجیکٹ کے بعد اضافہ ہوا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2013ء سے پہلے پاکستان میں موجود چینی باشندوں کی تعداد 20 ہزار تھی جو 2018ء میں 60 ہزار تک پہنچی۔
چینی باشندوں پر پہلا حملہ مئی 2004 میں بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں کیا گیاجہاں چینی ماہرین کو لے جانے والی گاڑی کو ریموٹ کنٹرول کار بم دھماکے میں نشانہ بنایا گیا۔ اس حملے میں تین چینی انجینئر ہلاک ہوئے جو گوادر کی بندرگاہ کی تعمیر پر کام کررہے تھے۔
اس کے بعد 2006ء میں گوادر اور کراچی سے متصل بلوچستان کے ضلع لسبیلہ کے علاقے حب میں چینی انجینئرز کے قافلے پر حملہ کیا گیا تاہم اس حملے میں چینی باشندے محفوظ رہے۔
مئی 2017ء میں بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں جناح ٹاؤن سے نامعلوم افراد نے چینی جوڑے کو اغوا کیا۔ دونوں میاں بیوی کی ڈھانچہ نما لاشیں بعد ازاں مستونگ کے پہاڑی سلسلے میں داعش کے خلاف کیے گئے ایک آپریشن کے دوران ملی تھیں۔ اس آپریشن میں ایک درجن کے قریب شدت پسند مارے گئے تھے۔

سنہ 2018 کے دوران سب سے زیادہ حملے کیے گئے

جولائی 2018 میں  کراچی کے علاقے گلبائی میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے چینی شہری زخمی ہوگیا۔فروری  2018ء میں کراچی کے علاقے ڈیفنس زمزمہ میں نامعلوم افراد نے چینی باشندے کو فائرنگ کر کے قتل کیا۔

بی ایل اے کے خودکش سکواڈ کا نام مجید لانگو نام کے دو بھائیوں کی مناسبت سے رکھا گیا۔ فوٹو: اے ایف پی

اسی سال اگست میں بلوچستان کے ضلع چاغی کے علاقے دالبندین میں سیندک پراجیکٹ پر کام کرنے والے چینی انجیئرز کی بس پر  خودکش حملہ کیا گیا۔ اس حملے میں دو چینی انجینئرز سمیت پانچ افراد زخمی ہوئے تھے۔ بلوچستان میں چینی باشندوں پر یہ پہلا خودکش حملہ تھا ۔خودکش حملہ آور کی شناخت ریحان کے نام سے ہوئی تھی جو کالعدم بلوچ لبریشن آرمی کے اس وقت کے سربراہ اسلم اچھو کا بیٹا تھا۔
نومبر 2018ء میں کراچی میں چین کے قونصل خانے پر خودکش حملہ کیا گیا جس میں دوپولیس اہلکار ،دوعام شہری اورتین حملہ آور مارے گئے۔ چاغی اور کراچی میں ہونے والے دونوں خودکش حملوں کی ذمہ داری کالعدم بلوچ لبریشن آرمی کے خودکش سکواڈ ’مجید بریگیڈ‘ نے قبول کی تھی۔
مجید بریگیڈ کے بانی اورکراچی اور چاغی میں چینی ماہرین پر ہونے والے حملوں کا ماسٹر مائنڈ کالعدم بلوچ لبریشن آرمی کا سربراہ اسلم اچھو دسمبر 2018ء میں افغانستان کے صوبہ کندھار میں ایک دھماکے میں چھ ساتھیوں سمیت مارا گیا۔ تاہم اس کے باوجود ایسی کارروائیوں کا سلسلہ نہ رکا۔
مجید بریگیڈ نے مئی 2019 میں گوادر کے پرل کانٹی نینٹل ہوٹل پر حملہ کیا جس میں ہوٹل ملازمین سمیت پانچ افراد ہلاک ہوئے جبکہ جون 2020 میں کراچی سٹاک ایکسچینج پر ہونے والے حملے میں بھی یہی گروہ ملوث تھا۔
اپریل 2021ء میں کوئٹہ کے معروف ہوٹل سرینا ہوٹل کے پارکنگ ایریا میں اس وقت خودکش دھماکا کیا گیا جب وہاں پاکستان میں متعین چین کے سفیر پہنچنے والے تھے۔ اس حملے میں چینی سفیر اور اہلکار محفوظ رہےتاہم پانچ افراد ہلاک ہوئے۔اس حملے کی ذمہ داری کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی تھی۔
جولائی 2021ء  کو خیبر پختونخوا کے ضلع اپر کوہستان میں داسو ہائیڈرو پاور پلانٹ کے قریب ایک حملے میں 9 انجینیئرز، دو فرنٹیئر کور اہلکاروں سمیت 13 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ چینی اور پاکستانی تعمیراتی کارکنوں کو لے جانے ولی بس کو بارودی مواد کے ذریعے نشانہ بنایا گیا جس کے بعد بس گہری کھائی میں گر گئی تھی۔
21 اگست 2021ء میں گوادر میں ساحل سمندر پر سڑک کی تعمیر پر کام کرنے والے چینی انجینئرز کی گاڑی پر خودکش حملے میں چار بچے ہلاک اور ایک چینی انجینئر زخمی ہوا تھا۔اس حملے کی ذمہ داری بھی بی ایل اے کے مجید بریگیڈ نے قبول کی تھی۔

مئی 2017ء میں کوئٹہ کے جناح ٹاؤن سے نامعلوم افراد نے چینی جوڑے کو اغوا کیا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی

مجید بریگیڈ نے ہی رواں سال فروری میں بلوچستان کے ضلع نوشکی اور پنجگور میں فرنٹیئر کور کے کیمپوں پر حملے کئے۔یہ کارروائی تقریباً تین دن تک جاری رہی جس میں فوجی ترجمان کے مطابق بیس دہشتگرد اور نو فوجی ہلاک ہوئے۔

بی ایل اے کا مجید بریگیڈ کب سامنے آیا

مجید بریگیڈ کا نام پہلی بار دسمبر 2011ء میں سامنے آیا تھا۔ بی ایل اے کے خودکش سکواڈ نے باقاعدہ خودکش حملوں کا آغاز 2018ء میں چاغی سے کیا اور اس کے بعد اب تک مجید بریگیڈ چاغی، کراچی، گوادر ، نوشکی اور پنجگور میں 8 حملے کر چکی ہیں۔
تنظیم کے اس خودکش سکواڈ کا نام مجید لانگو نام کے دو بھائیوں کی مناسبت سے رکھا گیا۔ ان میں ایک بھائی نے 70ء کی دہائی میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو پر ایک جلسے کے دوران دستی بم سے حملہ کیا تھا اس حملے میں وہ خود ہی مارا گیا تھا۔ مجید لانگو کے مرنے  کے بعد پیدا ہونے والے ان کے چھوٹے بھائی کا نام بھی مجید رکھا گیا جو کالعدم بلوچ لبریشن آرمی کا حصہ بنا۔مجید لانگو جونیئر بھی 2011ء میں کوئٹہ کے علاقے بروری میں سیکورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپ میں مارا گیا۔

شیئر: