ریاض - - - - - برسوں سے ماں کی تلاش میں سرگرداں نوجوان جب منزل کے قریب پہنچا تو اس کی یادداشت کھو گئی۔بیشہ میں مقیم19سالہ سعید الھزری جس خاتون کو اپنی حقیقی ماں سمجھ رہا تھا وہ دراصل اس کی سوتیلی والدہ تھی ۔عاجل نیوز ویب سائٹ نے سعید الھزری کی کہانی بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ 19سالہ سعید اپنے اہل خانہ کے ساتھ بیشہ میں خوش و خرم زندگی گزار رہا تھا۔ایک دن اس کی والدہ نے سعید کو بتایا کہ وہ اس کی حقیقی ماں نہیں ۔ یہ خبر سن کر سعید پریشان ہو گیا۔اس نے تہیہ کیا کہ اپنی حقیقی والدہ کو تلاش کر کے رہے گا ۔ سعید نے والدہ کی تلاش شروع کرتے ہوئے سب سے پہلے اپنے والد سے حقیقت حال دریافت کیا ۔والد نے بتایا کہ وہ نیشنل گارڈ میں ملازم تھا اس سلسلے میں اس کی پوسٹنگ مختلف علاقوں میں رہتی تھی ۔اس دوران جب سعید کے والد کی پوسٹنگ ریاض کے نواحی علاقوں میں ہوئی تو اس نے وہاں ایک نوجوان لڑکی سے نکاح کر لیا ۔ شادی کے ایک برس بعد سعید کی ولادت ہوئی اسی دوران اس کے والد کا سعید کی والدہ سے اختلاف ہو گیا۔جس پر وہ ایک ماہ کے شیر خوار بچے کو اس کی روتی بلکتی ماں سے جدا کر کے بیشہ لے آیا جہاں اس نے بچے کو اپنی پہلی بیوی کے سپرد کر دیا۔ایک ماہ کا سعید اس حقیقت سے واقف نہ تھا کہ وہ جس آغوش میں پروان چڑھ رہا ہے وہ اس کی حقیقی ماں نہیں ۔ اسی طرح ماہ و سال گزرتے رہے اور سعید عمر کی منزلیں طے کرتا 19برس کو پہنچ گیا اسی دوران ایک دن سعید کی والدہ نے اسے باتوں ہی باتوں میں حقیقت حال سے آگاہ کر تے ہوئے کہا کہ’’ میں تمہاری حقیقی ماں نہیں بلکہ میں نے تمہاری پرورش کی ہے‘‘ ۔ یہ خبر سعید پر بجلی بن کر گری اور وہ یہی سوچتا رہا کہ کس طرح اپنی اصل ماں کو تلاش کرے۔ سعید نے اپنی سوتیلی ماں سے اپنی والدہ کے بارے میں دریافت کیا مگر اسے خاطر خواہ جواب نہ ملاجس پر اس نے اپنے والد سے حقیقت حال جاننے کیلئے دریافت کیا ۔ سعید کے والد نے اپنے بیٹے کے آنسوئوں کو دیکھتے ہوئے اسے 19سال پرانا قصہ بتادیا۔جب وہ نیشنل گارڈ میں ملازم تھا اور کس طرح اس نے وہاں ایک لڑکی سے شادی کی۔سعید کو صرف یہ معلوم تھا کہ اس کی والدہ کا تعلق جازان ریجن سے ہے تاہم اسے مزید کوئی معلومات حاصل نہ ہو سکی ۔ حقیقی ماں کی تلاش میں سرگرداں سعید کو ایک دن یہ معلوم ہوا کہ اس کی حقیقی خالہ ریاض میں کہیں رہتی ہے ۔سعید نے اپنی کوششیں جاری رکھیں اور بالآخر اسے اس کی خالہ کا ٹیلیفون نمبر مل گیا۔برسوں سے والدہ کی آغوش پانے کیلئے بے چین سعید کو جوں ہی خالہ کا ٹیلیفون ملا اس نے فوری طور پر رابطہ کیا اور اپنے بارے میں تفصیل بتائی ۔ خالہ نے بھی اپنے بچھڑے ہوئے بھانجے کو خوش آمدید کہا اور اس سے کہا کہ وہ فوری طور پر بیشہ سے ریاض آجائے جہاں وہ اس کو اس کی ماں سے ملائے گی ۔ سعید ماں سے ملنے کی خوشی میں اتنا بیتاب تھا کہ وہ فوری طور پر بیشہ سے ریاض کیلئے نکل پڑا ۔ راستے میں اس کی اپنی خالہ سے ٹیلیفون پر بات ہوتی رہی ۔ ریاض سے ایک گھنٹے کی مسافت باقی تھی کہ قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔اچانک سعید کی کار حادثے کا شکار ہو گئی اس طرح ماں اور بیٹے کے درمیان ایک گھنٹے کا فاصلہ برسوں پر پھیل گیا۔سعید کو ہلال احمر کی ایمبولینس میں ڈال کر ریاض کے اسپتال پہنچا دیا گیا۔اس وقت سے سعید اپنی یادداشت مکمل طور پر کھو چکا ہے ۔ سعید کو یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ ریاض کس لئے جا رہا تھا نہ ہی اب اسے اس بات کا احساس ہے کہ اس کی کوئی ماں بھی ہے ۔ سعید کی کار کو حادثہ 2009ء میں پیش آیا اس وقت سے آج تک سعید اسپتال کے خصوصی وارڈ میں لیٹا ہے مگر مکمل طور پر یادداشت کھو چکی ہے ۔ سعید کے والد کا چند ماہ قبل انتقال ہو چکا ۔ حادثے میں اس کا وہ ٹیلیفون بھی ضائع ہو چکا جس سے سعید کی خالہ کا نمبر مل سکتا تھا۔اس وقت سعید کی سوتیلی ماں اور بھائی بہن بیشہ میں مقیم ہیں جبکہ یادداشت سے محروم سعید ریاض کے اسپتال میں ماضی اور حال سے بے خبر تقدیر کے فیصلے پر منتظر ہے ۔