’حکومت ایک ہفتے میں ای سی ایل رولز میں ترمیم قانون کے دائرے میں لائے‘
’حکومت ایک ہفتے میں ای سی ایل رولز میں ترمیم قانون کے دائرے میں لائے‘
جمعہ 3 جون 2022 12:14
زبیر علی خان -اردو نیوز، اسلام آباد
عدالت نے نیب اور ایف آئی اے سے ہائی پروفائل کیسز کی تفصیلات بھی طلب کرلیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)
سپریم کورٹ نے وفاقی کابینہ کو ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) کے رولز میں کی گئی ترمیم کو ایک ہفتے کے اندر قانون کے دائرے میں لانے کی ہدایت کی ہے۔
اعلٰی حکومتی شخصیات کے خلاف ہائی پروفائل کیسز میں مبینہ مداخلت سے متعلق از خود کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ ’ایگزیکٹیو کے معاملات میں مداخلت نہیں کرنا چاہتے ایک ہفتے میں مناسب اقدامات کرلیں۔‘
’حکومت کو ایک ہفتے کی مہلت دیتے ہیں ورنہ مناسب حکم جاری کریں گے ہو سکتا ہے عدالتی حکم مشکلات پیدا کردے۔‘
عدالت نے نیب اور ایف آئی اے سے ہائی پروفائل کیسز کی تفصیلات بھی طلب کر لی ہیں جبکہ ایف آئی اے میں پراسیکیوٹرز اور تفتیشی افسران اور کے علاوہ تقرر و تبادلے کی اجازت دے دی ہے۔
چیئرمین نیب سے متعلق اہم ریمارکس
دوران سماعت چیف جسٹس نے نئے چیئرمین کے تقرر سے متعلق بھی اہم ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ حکومت نئے چیئرمین نیب کی تعیناتی پر احتیاط کا مظاہرہ کرے گی۔ شفافیت کے تحت نئے چیئرمین کی تعینات کرکے اچھے طرز حکمرانی کے معیار کو برقرار رکھا جائے گا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہماری نظریں نئے چیئرمین نیب کی تعیناتی پر ہیں۔ قابل احترام اور اچھی شہرت کے حامل شخص کو چیئرمین نیب لگائیں اور اس تعیناتی میں کسی کو غیر ضروری فائدہ نہ پہنچائیں۔
دوران سماعت اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کسی فرد کے خلاف تحقیقات کے سبب نقل و حرکت پر پابندی نہیں لگائی جاسکتی۔
’حکومت نے تمام قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے ای سی ایل رولز میں ترمیم کی ہے۔ وفاقی کابینہ میں شامل افراد کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا مقصد حکومتی انجام دہی میں آزادانہ نقل و حرکت ہے۔‘
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر نیب یا کوئی بھی تحقیقاتی ادارہ کسی کے خلاف تحقیقات کر رہا تھا تو متعلقہ ادارے سے مشاورت کر کے ای سی ایل سے نام نکالنا چاہیے تھا۔‘
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ملزمان کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی کیا جلدی تھی؟ ای سی ایل رولز میں ترمیم کا اطلاق گذشتہ تاریخوں سے ہوگا اس کا ذکر کہیں موجود نہیں ہے۔ انہوں نے ریمارکس دیے کہ حکومت ای سی ایل میں شامل وزرا کا نام فہرست سے نکالنے کا فیصلہ کیسے کر سکتی ہے؟
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ خواجہ سعد رفیق کا نام عدالت نے خود ای سی ایل میں شامل کروایا ہے، ای سی ایل میں شامل ایک فرد اہم حکومتی معاشی فیصلے کر رہا ہے۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ سعد رفیق کابینہ اجلاس میں موجود نہیں تھے جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ریکارڈ کے مطابق سعد رفیق نے ای سی ایل رولز میں ترمیم کی منظوری دی ہے۔ ذاتی مفاد کے لیے کوئی کیسے سرکاری فیصلے کر سکتا ہے؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر وزیراعظم کا نام ای سی ایل میں شامل ہو تو کیا کابینہ فیصلہ نہیں کرے گی؟
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ مناسب ہوگا کہ اگر کابینہ ہی ایسی بنے جس کا نام ای سی ایل میں شامل نہ ہو۔
چیف جسٹس نے ایک ہفتے کی مہلت دیتے ہوئے کہا کہ ’عدالت صرف یہ چاہتی ہے کہ قانون پر عمل درآمد ہو، ایگزیکٹیو اختیارات میں مداخلت نہیں چاہتے۔‘
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے ای سی ایل سے متعلق جواب دیتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ ای سی ایل میں رولز کی ترمیم کے بعد 30 افراد بیرون ملک گئے، 23 افراد واپس آگئے ہیں جبکہ شرجیل انعام میمن سمیت سات افراد بیرون ملک سے واپس نہیں آئے۔