تفصیل فراہم کریں کہ ای سی ایل رولز میں تبدیلی کا فائدہ کن کابینہ ارکان کو پہنچا؟
تفصیل فراہم کریں کہ ای سی ایل رولز میں تبدیلی کا فائدہ کن کابینہ ارکان کو پہنچا؟
جمعہ 27 مئی 2022 12:00
زبیر علی خان -اردو نیوز، اسلام آباد
عدالت عظمیٰ کے مطابق ’مقدمات کا سامنا کرنے والے کابینہ ارکان کا رولز کی تبدیلی کی منظوری دینا مفادات کا ٹکراؤ ہے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
سپریم کورٹ میں ہائی پروفائل کیسز پر اثرانداز ہونے کے خلاف از خود نوٹس کیس کی سماعت کرتے ہوئے عدالت نے ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکالے گئے ناموں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ای سی ایل سے نام نکالنے کے لیے رولز میں تبدیلی کا اطلاق ماضی سے کیسے ہوسکتا ہے؟
’مقدمات کا سامنا کرنے والے کابینہ میں شامل کسی وزیر کا رولز کی تبدیلی کی منظوری دینا مفادات کا ٹکراؤ ہے۔‘
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
چیف جسٹس نے ای سی ایل سے نکالے گئے ناموں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’22 اپریل 2022 کو ای سی ایل رولز میں تبدیلی کی گئی،کرپشن، ایک کروڑ روپے کی ٹیکس چوری کے مقدمات کے بارے میں نام ای سی ایل سے نکال دیے گئے۔‘
’اٹارنی جنرل بتائیں کہ ای سی ایل رولز کے سیکشن دو میں کیسے ترمیم کی گئی؟ کیا ترمیم کرتے وقت متعلقہ اداروں سے مشاورت کی گئی؟‘
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا رولز میں تبدیلی کے بارے میں کابینہ سے منظوری کے نوٹی فیکیشن میں یہ لکھا گیا کہ اس کا اطلاق ماضی سے ہوگا؟
’مقدمات کا سامنا کرنے والے کابینہ میں شامل کسی وزیر کا رولز میں تبدیلی کی منظوری دینا مفادات کا ٹکراؤ ہے۔ تفصیلات فراہم کریں کابینہ میں شامل کن ارکان کو فائدہ پہنچا؟‘
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم چاہتے ہیں کہ قانون کی عمل داری ہو۔ہم ایگزیکٹیو کے اختیارات میں مداخلت نہیں کریں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ’ہم ابھی کوئی آرڈر پاس نہیں کررے لیکن ایسا کوئی شخص جس کے خلاف مقدمہ ہو وہ ملک سے باہر نہیں جائے گا۔‘
اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے عدالت میں کہا کہ کابینہ کی منظوری کے منٹس عدالت میں پیش کردوں گا، دیکھ لیتے ہیں کہ کیا وہ ممبران جن کے نام ای سی ایل میں تھے وہ ترمیم والی کمیٹی کے اجلاس میں موجود تھے یا نہیں؟ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ای سی ایل رولز میں ترمیم تجویز کی۔
چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ ای سی ایل رولز میں ترمیم کے طریقہ کار سے متعلق رپورٹ عدالت میں جمع کروائیں۔
عدالت میں وزیراعظم اور وزیراعلٰی پنجاب کے کیس کی پیروی کرنے والے ایف آئی اے کے افسران کے تبادلے سے متعلق رپورٹ پیش کی گئی۔
جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیے کہ’ایف آئی اے رپورٹ سے تاثر ملا کہ بہت سے معاملات کو غیر سنجیدہ اقدامات کے ذریعے کور کیا گیا ہے۔‘
’وزارت قانون نے 13 مئی کو سکندر ذوالقرنین سمیت ایف آئی اے پراسیکیوٹرز کومعطل کیا۔بظاہر ایف آئی اے پراسیکیوٹرز کو کیس کی دو سماعتوں میں پیش نہ ہونے کی بنیاد پر معطل کیا گیا ہے۔‘
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پراسیکیوٹرز کو تبدیل کرنے کے لیے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے۔
پراسیکیوٹر جنرل نیب نے بتایا کہ نیب کا تمام ریکارڈ مکمل محفوظ ہے۔
عدالت کے استفسار پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ایف آئی کا تمام ریکارڈ بھی محفوظ ہے۔ عدالت نے ریکارڈ محفوظ ہونے کا ڈی جی ایف آئی اے کی جانب سے سرٹیفیکیٹ جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ’ریکارڈ میں کمی بیشی ہوئی تو ڈی جی ایف آئی اے ذمہ دار ہوں گے۔‘
وزیراعظم کے وکیل عرفان قادر سپریم کورٹ میں پیش ہوئے اور کہا کہ ملک میں دو سیاسی جماعتوں کے درمیان کشیدگی چل رہی ہے، دو پارٹیوں کی کشیدگی کے درمیان عدالت ہے۔ میں عدالت کی معاونت کرنا چاہتا ہوں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی شخصیات کے حوالے سے تفصیل میں نہیں جائیں گا آپ نے کچھ کہنا ہے تو لکھ کر دے دیں۔ عدالت کسی کا انفرادی کیس نہیں بلکہ سسٹم کو دیکھ رہی ہے۔ آپ کی معاونت کی ضرورت نہیں ہے۔
عدالت نے کیس کی مزید سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی۔