پنجاب میں خواتین اساتذہ کے لیے سکوٹی کس حد تک مسئلے کا حل؟
پنجاب میں خواتین اساتذہ کے لیے سکوٹی کس حد تک مسئلے کا حل؟
بدھ 8 جون 2022 5:32
رائے شاہنواز - اردو نیوز، لاہور
وزیراعلیٰ پنجاب کی زیر صدارت اجلاس میں پروگرام کی منظوری دی گئی۔ فوٹو: اے ایف پی
پاکستان کے صوبہ پنجاب میں حکومت نے خواتین اساتذہ کو سکول جانے کے لیے سکوٹیز فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اردو نیوز کو دستیاب سرکاری دستاویزات کے مطابق پنجاب حکومت کے محکمہ تعلیم برائے سکول ایجوکیشن نے پنجاب کے سکولوں میں پڑھانے والی خواتین اساتذہ کو سکوٹیز فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ گھر سے سکول تک پیش آنے والے آمد و رفت کے مسائل کا حل نکالا جا سکے۔
سیکرٹری سکول ایجوکیشن نبیل جاوید کے مطابق اس پروگرام کو ابتدائی طور پر ایک پائلٹ پروجیکٹ کے طور پر لایا جا رہا ہے ہیں تاکہ یہ اندازہ لگایا جائے کہ سکوٹی کس حد تک خواتین اساتذہ کے لیے کارآمد ہو سکتی ہے۔
ان کے مطابق اس کا بنیادی مقصد ان خواتین کی مدد کرنا ہے جو اپنے گھر سے دور پڑھانے کے لیے جاتی ہیں اور اس دوران انہیں پبلک ٹرانسپورٹ کے مسائل کا سامنا رہتا ہے۔
’پہلے فیز میں چند بڑے شہروں سمیت چھوٹے اضلاع میں اس کا تجربہ کیا جائے گا، تاکہ فیڈ بیک کی بنیاد پر اس منصوبے کو پورے پنجاب میں چلایا جا سکے۔‘
جن اضلاع میں یہ پروگرام شروع کیا جا رہا ہے وہاں سے خواتین اساتذہ سے درخواستیں لی جائیں گی جو سکوٹی حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ اس کے بعد ہر کیس کی بنیاد پر اہل امیدواروں کو سکوٹیز فراہم کی جائیں گی۔
وزیراعلی پنجاب حمزہ شہباز کی زیر صدارت ہونے والے بجٹ تجاویز اجلاس میں اس منصوبے کی منظوری دی گئی ہے اور اس پر عمل درآمد کے لیے محکمہ سکول ایجوکیشن کو ٹاسک سونپا گیا ہے۔
حافظ آباد سے تعلق رکھنے والی خاتون ٹیچر حفیظ بی بی، جن کو اپنے گھر سے 10 کلو میٹر دو سکولوں میں پڑھانے کے لیے جانا ہوتا ہے نے اردو نیوز کو بتایا کہ حکومت کا یہ اقدام احسن ہے لیکن میرا خیال ہے کہ یہ پراجیکٹ نوجوان خواتین اساتذہ کے لیے زیادہ کارآمد ہو گا۔
’میری عمر 40 کے قریب ہو چکی ہے میرا نہیں خیال میں سکوٹی چلا سکتی ہوں۔ ویسے تو دیہی علاقوں میں کافی شعور آچکا ہے اور اب لڑکیاں سائیکل اور موٹر سائیکل چلاتی نظر آتی ہیں لیکن اس کے باوجود بھی خواتین اساتذہ کے اپنے گھر کا ماحول کیسا ہے اس چیز کا بھی بڑا اثر ہو گا۔ میرا خیال ہے حکومت کو پبلک ٹرانسپورٹ کو بہتر کرنے کی طرف توجہ دینی چاہیے۔‘
لاہور سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون ٹیچر سحر علی نے بتایا کہ ’ہم نے پہلے بھی سنا تھا کہ حکومت اساتذہ کو سکوٹیز فراہم کر رہی ہے لیکن کبھی عمل درآمد نہیں ہوا۔ اگر اس بار انہوں نے سوچ لیا ہے تو میرے خیال میں یہ ایک اچھا فیصلہ ہے۔‘
’میں تو خود سکوٹی خریرنے کا سوچ رہی تھی کیونکہ میرے ارد گرد کافی خواتین کو میں سفر کرتے دیکھتی ہوں تو مجھے لگتا ہے یہ سب سے آسان طریقہ ہے سفر کرنے کا۔‘
سرکاری دستاویزات میں البتہ یہ نہیں بتایا گیا کہ اس پراجیکٹ کے لیے ابتدائی طور پر کتنی خواتین اساتذہ مستفید ہوں سکیں گی۔ اور یہ پراجیکٹ کن کن اضلاع اور شہروں میں شروع کیا جا رہا ہے۔
سیکرٹری سکول ایجوکیشن کے مطابق یہ تمام تفصیلات بجٹ دستاویزات میں شامل کی جائیں گی اور انہیں حتمی شکل دی جا رہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ صرف اساتذہ ہی نہیں بلکہ بچوں اور بچیوں کو سائیکل فراہم کرنے کا ایک پراجیکٹ بھی حتمی مرحلے میں ہے۔
’اس کے تحت ابھی تین اضلاع اٹک، فیصل آباد اور مظفر گڑھ کے سکولوں میں بچے اور بچیوں کو دس دس سائیکلیں دیی جائیں گی۔‘
’ہر وہ طالب علم جس کے گھر سے سکول پانچ کلو میٹر سے زائد فاصلے پر ہو گا وہ اس پراجیکٹ میں حصہ لینے کا اہل ہو گا۔ ابتدائی طور پر ان تین اضلاع میں ہر سکول کے لیے دس سائیکلیں ہوں گیں اور بعد میں ان کی تعداد بڑھائی جائے گی۔‘