پاکستان کے صوبہ پنجاب میں جہاں وزیراعلیٰ حمزہ شہباز نے حکومت سنبھالنے کے بعد باقاعدہ کام شروع کر دیا ہے وہیں نئے گورنر بلیغ الرحمٰن کے چارج سنبھالنے سے سیاسی افراتفری میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔
سیاسی افراتفری کے دور میں سب کی نظریں بیوروکریسی پر تھیں کہ نئی حکومت کے ساتھ پنجاب کے افسر کیا سلوک کرتے ہیں۔
اس کی بڑی وجہ تحریک انصاف کی حکومت کے دور میں یہ تاثر تھا کہ بیوروکریسی ڈھنگ سے کام نہیں کر رہی۔ اس سلسلے میں سابقہ حکومت نے سات دفعہ چیف سیکریٹری جبکہ آٹھ دفعہ آئی پنجاب کو تبدیل کرنے کے ساتھ بیوروکریسی میں تبادلوں کا سلسلہ تقریباً اپنے تمام دور حکومت میں جاری رکھا۔
مزید پڑھیں
-
بیوروکریسی پر اعتماد نہیں،عبدالرزاق داودNode ID: 356801
پاکستان کے مقامی میڈیا میں یہ خبریں بھی سامنے آتی رہیں کہ وزرا نے سابق وزیراعظم عمران خان سے بارہا بیوروکریسی کے کام نہ کرنے کی شکایات کیں۔
موجودہ حکومت کے کام سنبھالتے ہی یہ امر توجہ کا مرکز رہا کہ کیا اب بھی بیوروکریسی کام نہیں کر رہی یا کر رہی ہے۔
پنجاب کے سول سیکریٹریٹ کے ایک اعلیٰ افسر نے اردو نیوز کو نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا اس وقت افسر شاہی پوری طرح متحرک ہے اور کسی بھی قسم کے خوف کی فضا نہیں ہے۔
انہوں نے بتایا ’پوری بیوروکریسی اوپر سے نیچے تک مستعدی کے ساتھ کام کر رہی ہے۔ کسی بھی فائل میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں ہو رہی۔ اس کی ایک مثال اس حکومت کا آٹے پر سبسڈی دینے کا فیصلہ تھا۔‘

’ابھی کابینہ نہیں بنی تھی لیکن وزیراعلیٰ نے سبسڈی کا اعلان کر دیا حالانکہ یہ کام کابینہ کی منظوری کے بعد قابل عمل ہونا تھا، لیکن سبسڈی شروع کر دی گئی جس کی باقاعدہ منظوری ایک ہفتے بعد کابینہ کے پہلے اجلاس میں لی گئی۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ اتنا بڑا فرق ہونے کی بڑی وجہ کیا ہو سکتی ہے تو سرکاری افسر کا کہنا تھا ’میرے خیال میں دو وجوہات ہیں ایک تو موجود سیاسی حکومت کا بیوروکریسی سے متعلق رویہ پروفیشنل ہے۔ ایک مہینے میں نئے وزیراعلیٰ نے پورے سسٹم کی ایک ایک چیز کو سمجھ لیا اور ان کے پاس اپنے منصوبے بھی تھے۔‘
’دوسری بات یہ ہے سب سے پہلے بیوروکریسی کو یہ بتایا گیا کہ انہیں کسی قسم کے ڈر خوف کی ضرورت نہیں ہے۔ چیف سیکریٹری اور آئی جی جو پچھلی حکومت نے لگائے تھے انہی پر اعتماد کیا گیا تو افسر شاہی میں ایک انتہائی مثبت پیغام گیا۔‘
خیال رہے گزشتہ حکومت میں سابق وزیراعظم کے 22 ویں گریڈ کے پرنسپل سیکریٹری فواد حسن فواد اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے قریب سمجھے جانے والے افسر احد چیمہ پر نیب نے کیس چلائے اور انہیں گرفتار رکھا گیا۔
اس حوالے سے افسر شاہی خاصی تذبذب کا شکار رہی۔ بعد میں سابق چیئرمین نیب جاوید اقبال نے اپنے کئی بیانات میں بیوروکریسی کا اعتماد بحال کرنے کا عندیہ دیا لیکن سیاسی ماہرین کے مطابق اس سے کوئی خاطر خواہ فرق نہیں پڑا۔

ترجمان پنجاب حکومت عطا اللہ تارڑ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا ’ہمیں بیوروکریسی سے کسی بھی قسم کی کوئی شکایت نہیں۔ بلکہ ہمیں تو یہ لگ رہا ہے کہ افسر شاہی پہلے سے زیادہ کام کر رہی ہے جو ہماری گزشتہ حکومتوں میں کیا جاتا تھا۔‘
عطا اللہ تارڑ کے مطابق ’اس کی وجہ یہ نہیں کہ بیوروکریسی کوئی ہماری طرف دار ہے بلکہ ان کو پتا ہے کہ ہمیں کام آتا ہے۔ فیصلہ سازی کی قوت ہے۔ جس کو کام آتا ہو آپ اس کو کسی قسم کے دھوکے میں نہیں رہ سکتے۔ اس وقت 24 گھنٹے کام ہو رہا ہے۔ افسر گھروں میں جا کر بھی کام کر رہے ہیں کیونکہ انہیں پتا ہے صبح میٹنگ میں پوچھا جائے گا۔‘
تو کیا صوبے میں کام ہونے یا نہ ہونے کا تعلق سیاسی جماعتوں سے ہوتا ہے؟ اس حوالے سے بات کرتے ہوئے پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کی سربراہ ڈاکٹر امبرین کا کہنا تھا ’اس میں کوئی شک نہیں کہ سیاسی قیادت کا بڑا اثر ہوتا ہے کیونکہ فیصلے حکومتوں نے ہی کرنے ہوتے ہیں۔ بیوروکریسی تو مشین کی طرح ہوتی ہے۔ اس مشین کو چلانے والے پر انحصار سب سے زیادہ ہوتا ہے کہ اس کا کام کرنے کا طریقہ کیا ہے۔‘
’میں کسی کو برا یا اچھا تو نہیں کہوں گی صرف یہی کہ سکتی کہ سیاسی قیادت فیصلہ سازی میں بنیادی اہمیت کی حامل ہوتی ہے اور لیڈرشپ کا رول ادا کرتی ہے۔‘
