Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بنی گالہ میں خیبرپختونخوا کے اساتذہ کا احتجاج: اسلام آباد پولیس کی مزید نفری طلب

خیبرپختونخوا کے ایڈہاک اساتذہ تاریخ تقرری سے مستقلی کا مطالبہ کر رہے ہیں (فوٹو: ویڈیو گریب)
خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے ’خوددار بجٹ‘ پیش کیے چند ہی روز گزرے تھے کہ صوبے میں گزشتہ چند برسوں کے دوران عارضی بنیادوں پر تعینات اساتذہ حکومتی پالیسی اور بجٹ اعلانات کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے پارٹی چیئرمین عمران خان کی اسلام آباد میں واقع رہائش گاہ پہنچے ہیں۔
پاکستان کے شمال مغربی صوبے سے تعلق رہنے والے اساتذہ ایک ایسے وقت میں عمران خان کی رہائش گاہ کے باہر جمع ہو کر احتجاج کر رہے ہیں جب د وہ خود پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے پر وفاقی حکومت کے خلاف احتجاجی پروگرام کا اعلان کر چکے ہیں۔
اتوار کو خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع سے قافلوں کی صورت میں بنی گالہ پہنچنے والے اساتذہ ایک منی ٹرک پر ساؤنڈ سسٹم لگا کر جہاں اپنے مطالبات کے حق میں تقاریر کر رہے ہیں وہیں صوبائی حکومت کے رویے کو بھی تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
اساتذہ کے احتجاج کے بعد پیداشدہ صورتحال میں ’اسلام آباد پولیس کی مزید نفری بنی گالہ طلب کی گئی ہے۔‘
اتوار کی رات کیے گئے اعلان میں اسلام آباد پولیس نے ’بنی گالہ میں تعینات مسلح سکیورٹی گارڈز اور خیبرپختونخوا پولیس کو احتجاج کرنے والے اساتذہ کے خلاف اسلحہ استعمال نہ کرنے کا حکم دیا ہے۔‘

بجٹ پیش کیے جانے سے قبل اور اس کے بعد سے صوبائی حکومت سے اصلاح احوال کا مطالبہ کرنے والے اساتذہ کی ڈیمانڈ پوری ہونا ابھی باقی ہے البتہ اسی دوران حکومت نے ینگ ٹیچرز ایسوسی ایشن کے صوبائی صدر عطاء الرحمن کو 16 جون کو ملازمت سے برطرف کر دیا۔
اردو نیوز کے پاس دستیاب سرکاری حکمنامے میں محکمہ تعلیم کے ضلعی افسر نے لوئر دیر کی تحصیل خال کے گورنمنٹ ہائی سکول میں تدریسی ذمہ داریاں سرانجام دینے والے استاد کی برطرفی کی وجہ ’ایڈہاک کنٹریکٹ ٹیچرز کو حکومت کے خلاف احتجاج پر بھڑکانا بتایا ہے۔‘

خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع سے اساتذہ اسلام آباد پہنچے ہیں (فوٹو: ارمان خٹک، فیس بک)

ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افسر میل محمد عزیز علی کے دستخوں سے جاری کردہ حکمنامے میں ’صوبائی حکومت کو بدنام کرنے‘ کو برطرف شدہ استاد کا جرم بتایا گیا ہے۔
اساتذہ صرف عمران خان کی رہائش گاہ کے باہر عملی احتجاج ہی نہیں کر رہے بلکہ سوشل میڈیا پر ’19 جون بنہ گالہ دھرنے‘ کے ہیش ٹیگ کے ساتھ بھی اپنے مطالبات پیش کر رہے ہیں۔

احتجاج کرنے والے اساتذہ پینشن ودیگر مراعات دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں (فوٹو: وائی ٹی اے چارسدہ، فیس بک)

قبل ازیں سرکاری ملازمین کی نمائندہ تنظیم اگیگا نے بھی ینگ ٹیچرز ایسوسی ایشن کے دھرنے کی حمایت کا اعلان کیا۔
سرکاری ملازمین کی نمائندہ تنظیم نے ینگ ٹیچرز ایسوسی ایشن کے صوبائی صدر عطاالرحمن کی برطرفی کو غیرقانونی قرار دیا تو اگیگا پاکستان کے مرکزی صدر رحمان باجوہ نے یہ اعلان بھی کیا کہ بنی گالہ دھرنے میں شریک اساتذہ کے لیے انتظامات میں بھی تعاون کریں گے۔
سوشل میڈیا پر اساتذہ کے دھرنے کی حمایت کرنے والوں نے عمران خان، وزیراعلی خیبرپختونخوا سمیت خزانے اور تعلیم کے وزرا کو مینشن کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ ’اساتذہ کے مطالبات فوری طور پر تسلیم کیے جائیں۔‘

عطیہ نے لکھا کہ ’نوجوان اساتذہ کو مستقل کیے جانے سے محروم رکھنا بے رحمانہ اور غیرمنصفانہ ہے۔‘

خیبرپختونخوا کے اساتذہ کے مطالبات کیا ہیں؟

ینگ ٹیچرز ایسوسی ایشن کے تحت بنی گالہ کے باہر احتجاج کرنے والے اساتذہ کا مطالبہ ہے کہ وہ جس تاریخ کو بھرتی ہوئے اسی تاریخ سے انہیں مستقل کیا جائے۔ تاریخ تقرری سے سالانہ انکریمنٹ اور سنیارٹی دی جائے۔ 
احتجاج کا حصہ ایک استاد ارمان خٹک کے مطابق ہمارا مطالبہ ہے کہ ’2018 سے 2022 تک بھرتی کیے گئے تمام 58000 ایڈہاک اساتذہ  کو مستقل کیا جائے۔‘
ینگ ٹیچرز ایسوسی ایشن خیبرپختونخوا کے صدر عطاالرحمن کے مطابق جب تک ہمارے مطالبات پورے نہیں کیے جاتے، ہم اپنا پرامن دھرنا جاری رکھیں گے اور واپس نہیں جائیں گے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ ’حکومت فوری طور پر ایڈہاک اساتذہ کو ریگولر کرنے کا نوٹیفیکیشن جاری کرے۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو ہم اپنا حق لیے بغیر نہیں رہیں گے۔‘
 ینگ ٹیچرز ایسوسی ایشن پنجاب کے صدر شفیق ڈوگر نے بھی احتجاج اساتذہ سے اظہار یکجہتی کیا۔ اپنے ویڈیو پیغام میں انہوں نے مطالبہ کیا کہ ’خیبرپخونخوا میں اساتذہ کو دی گئی سزاؤں کو ختم کیا جائے اور ہزاروں اساتذہ کو مستقل کیا جائے۔‘

شیئر: