Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’کون ہے جو پڑھنے سے روک رہا ہے‘، بھٹو کا طلبا سے سوال

ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ 1977 کو الٹ دیا گیا۔ فوٹو: اے ایف پی
’کاپی کے پھٹے پرانے صفحے پر لکھی میری درخواست پڑھ کر وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے جو الفاظ ادا کیے وہ آج بھی میرے کانوں میں گونجتے ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ یہ کون لوگ ہیں جو تمھیں پڑھنے سے روک رہے ہیں؟‘ 
یہ کہانی ضلع چترال کے گاؤں ایون سے تعلق رکھنے والے محمد علی جناح المعروف جناح لال کی ہے جنہیں سکول انتظامیہ نے زیادہ عمر کا جواز بناتے ہوئے نویں جماعت سے نکال دیا تھا۔
45 سال قبل اقتدار سے محروم ہونے والے بھٹو کو آج بھی لاکھوں لوگ یاد کرتے ہیں جن میں ایون کے جناح لال بھی شامل ہیں۔  
ٹھیک 45 سال پہلے آج ہی کے دن اس وقت کے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ جنرل محمد ضیاالحق نے بہ زور طاقت الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔
جناح لال کے مطابق بھٹو صاحب کا فلسفہ تھا کہ غربت کوئی قانون خداوندی نہیں کہ غریب ہمیشہ غریب ہی رہے۔  
اردو نیوز کے ساتھ ایک انٹرویو میں جناح لال نے بتایا کہ ان کی ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ پہلی اور آخری ملاقات 1972 یا 1973 میں ہوئی جب انہیں آٹھویں جماعت کے بعد سکول چھوڑے بہت عرصہ گزر چکا تھا۔
جناح لال نے بتایا کہ ایک دن انہیں اور ان کے دوست کو دوبارہ تعلیم شروع کرنے کا خیال آیا تو انہوں نے اپنے گاؤں کے ہائی سکول میں نویں جماعت میں داخلہ لے لیا لیکن چار دن بعد ہی سکول کے ہیڈماسٹر نے گھر بھیج دیا۔
’ہیڈماسٹر صاحب نے کہا کہ آپ لوگوں کی عمر زیادہ ہو چکی ہے۔ اس لیے آپ مزید نہیں پڑھ سکتے۔‘
جناح لال کے مطابق زیادہ عمر کو جواز بنا کر ان کو اور ان کے دوست کو سکول سے نکال دیا گیا۔
لیکن کچھ ایسا اتفاق ہوا کہ انہی دنوں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو چترال کے دورے پر آئے اور مقامی ایم پی اے قادر نواز (جو بعد میں صوبائی وزیر بنے) کے توسط سے جناح لال اور ان کے دوست نے بھی بھٹو سے ملاقات کی۔
’ہم نے وزیراعظم بھٹو سے چترال کے سکاؤٹ مِیس میں ملاقات کی۔ میں نے کاپی کے ایک پھٹے پرانے صفحے پر سکول سے نکالے جانے کے خلاف بھٹو صاحب کے نام درخواست لکھی ہوئی تھی۔‘  
جناح لال بتاتے ہیں کہ بھٹو صاحب نے ان کی درخواست پر نظر ڈالنے کے بعد سر اٹھا کر جو رد عمل دیا وہ آج بھی انہیں کل کی طرح یاد ہے۔
’یہ کون لوگ ہیں جو تمہیں پڑھنے سے روک رہے ہیں۔ جاؤ جا کر پڑھو۔ یہ الفاظ تھے بھٹو صاحب کے جو آج بھی میرے کان میں گونجتے ہیں۔‘
’یہ سن کر ہم خوشی خوشی واپس اپنے گاؤں ایون گئے اور صبح سکول چلے گئے، ہیڈ ماسٹر صاحب کو بتایا کہ وزیراعظم بھٹو نے ہمیں کہا ہے کہ جاؤ جا کر پڑھ لو۔ ہم پڑھنے آئے ہیں۔‘ 
جناح لال کے مطابق ہیڈ ماسٹر صاحب نے کہا کہ ’بھٹو صاحب کے ’جاؤ جا کر پڑھ لو‘ کہنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ اس کے لیے تحریری حکمنامہ چاہیے ہوگا۔ آپ کو ہم ایسے نہیں سکول میں چھوڑ سکتے۔‘  
جناح لال کے مطابق ان کی خوشی عارضی ثابت ہوئی اور وہ مایوس ہو کر گھر واپس چلے گئے۔
’تقریباً چار سے پانچ دن بعد وہی ہیڈ ماسٹر سکول سے دوڑتا ہوا میرے گھر آیا اور کہا کہ سکول آجائیں پڑھنے کے لیے، آپ لوگوں کے حوالے سے تحریری حکمنامہ آگیا ہے۔‘ 
’اس طرح ذوالفقار علی بھٹو کی بدولت ہم نے سکول کی تعلیم مکمل کی اور آگے کالج میں بھی تعلیم حاصل کی۔ میرے دوست گریجویشن کرنے کے بعد سکول ٹیچر مقرر ہوئے اور سروس مکمل کرکے آج کل ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے ہیں۔‘ 

ذوالفقار علی بھٹو وزیرستان کا دورہ کرنے والے پہلے وزیراعظم تھے۔ فوٹو: ٹوئٹر

ذوالفقار علی بھٹو چترال میں مقبول کیوں تھے؟  
اس وقت کے شمال مغربی سرحدی صوبہ کے دیگر علاقوں کی نسبت ذوالفقار علی بھٹو چترال میں بہت زیادہ مقبول تھے۔ اپنے دور حکومت میں بھٹو نے چترال کے کئی دورے کیے اور لواری ٹنل جیسے منصوبے کی ابتدا بھی انہوں نے ہی کی تھی۔
پاکستان کے اس دور افتادہ اور پسماندہ علاقے میں ذوالفقار علی بھٹو کی غیر معمولی مقبولت کی وجوہات کے حوالے سے مطالعہ پاکستان کے استاد اور محقق پروفیسر ممتاز حسین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بھٹو کی عمومی مقبولیت کے ساتھ ساتھ چترال میں لوگ ان سے خصوصی محبت کرتے تھے۔  
ممتاز حسین نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’چترال میں ان کی مقبولیت کی دیگر وجوہات کے علاوہ ریاستی ٹیکس عشر کے خاتمے اور شیخ رشید کی قیادت میں لینڈ ریفارم کمیشن کے قیام  کا بنیادی کردار تھا۔ لینڈ کمیشن کے سامنے زمین کی ملکیت کے بہت سے تنازعات آئے جو ریاست کے خاتمے کے نتیجے میں پیدا ہوئے تھے۔ ان اقدامات کے نتیجے میں یہاں کے عوام میں بھٹو کا امیج ایک نجات دہندہ کے طور پر بنا۔‘
 

شیئر: