ذوالفقار علی بھٹو کے پسندیدہ کرکٹرز میں سے ایک عبدالحفیظ کاردار تھے۔ فوٹو: سوشل میڈیا
ذوالفقار علی بھٹو 13 برس کی عمر میں، کرکٹ بَلّوں کی لالچ میں شادی کے لیے راضی ہو گئے تھے۔ یہ بات مذاق مت جانیں کہ اس کی راوی محترمہ نصرت بھٹو ہیں۔ انھوں نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ جب ان کے گھر والے، بھٹو کی پہلی شادی پر معترض ہوئے تو بھٹو کی والدہ نے جواب دیا کہ اس وقت، ان کا بیٹا اس قدر ناسمجھ تھا کہ اپنی پسند کے بَلّوں کی ترغیب پر، شادی کے لیے مان گیا تھا۔
اٹلی سے تعلق رکھنے والی ممتاز صحافی اوریانا فلاسی، انٹرویو کرنے میں بڑی طاق تھیں۔ دنیا بھر میں اس حوالے سے ان کا شہرہ ہوا۔ ان کی کتاب ’انٹرویو ود ہسٹری‘ نے بہت مقبولیت حاصل کی۔
اس میں بھٹو کا انٹرویو بھی شامل ہے، جس میں وہ کہتے ہیں: ’میری شادی 13 برس کی عمر میں کزن سے کر دی گئی جس کی عمر 23 سال تھی۔ اس وقت میں بیوی کے مفہوم سے بھی ناآشنا تھا اور جب مجھے اس بارے میں سمجھانے کی کوشش ہوئی تو میں برافروختہ ہوگیا۔ مجھے بیوی کی ضرورت نہیں تھی۔ میں کرکٹ کھیلنا چاہتا تھا۔ میں اس کھیل کا شیدائی تھا۔ اس شادی کے لیے رضا مند کرنے کے لیے گھر والوں کو مجھے دو نئے کٹ بیگ دینے پڑے۔ شادی کی تقریب ختم ہوتے ہی میں کرکٹ کھیلنے کے لیے بھاگ کھڑا ہوا۔‘
بھٹو کی پہلی اہلیہ امیر بیگم کا بیان ہے کہ بمبئی میں، ان کے میاں نے گیند ڈوری سے باندھ کر پنکھے سے لٹکا رکھی تھی، جس پر وہ بیٹ سے ضرب لگا کر مشق کیا کرتے تھے۔
ذوالفقار علی بھٹو کی بہن مسز منور الاسلام نے بھی کرکٹ سے ان کی لگاوٹ کا ذکر کیا ہے۔ ان کے بقول، عبدالحفیظ کاردار، لالہ امرناتھ اور سید مشتاق علی ان کے پسندیدہ کرکٹر تھے۔
وہ بچپن میں اپنے بھائی کے دوست عمر قریشی کا ذکر بھی کرتی ہیں جو پاکستان میں کرکٹ کمنٹیٹر اور صحافی کی حیثیت سے معروف ہوئے۔ بمبئی کے کیتھڈرل سکول میں وہ بھٹو سے ایک جماعت آگے تھے۔ دونوں کرکٹ کے دیوانے تھے۔ پنٹینگولر ٹورنامنٹ میں مسلمان ٹیم کا کھیل بڑے شوق سے دیکھتے۔ اس کی جیت پر خوش ہوتے، اس کی ہار انھیں رنجیدہ کر دیتی۔
عمر قریشی نے اپنی کتاب Once Upon a Time میں لکھا ہے کہ بھٹو کے دل میں ٹیسٹ کرکٹر بننے کی شدید خواہش تھی۔
بھٹو سکول کی کرکٹ ٹیم کا حصہ تھے۔ سندر کرکٹ کلب کی طرف سے بھی کھیلتے رہے۔ دائیں ہاتھ کے اچھے بیٹسمین تھے۔ ٹیم کو ضرورت ہوتی تو اوپنر کی حیثیت سے بھی بیٹنگ کرتے۔ سکول کے زمانے میں ایک دفعہ رانجی ٹرافی کا میچ دیکھنے بمبئی سے کلکتہ جا پہنچے۔
ان کی کرکٹ سے دلچسپی اور مشتاق علی سے دوستی کا ذکر نامور تاریخ دان سٹینلے وولپرٹ نے ’زلفی بھٹو آف پاکستان‘ میں بھی کیا ہے۔
مشتاق علی کو برصغیر میں بڑی شہرت حاصل تھی۔ وہ ٹیسٹ میں بیرونِ ملک سنچری بنانے والے پہلے انڈین تھے۔ پرکشش شخصیت اور سٹائلش بیٹینگ کی وجہ سے لوگ ان کے دیوانے تھے۔ بھٹو بھی ان کے فین تھے۔
پیلو مودی نے اپنی کتاب ’زلفی مائی فرینڈ‘ میں مشتاق علی سے بھٹو کے تعلق کی کہانی یوں بیان کی ہے:
’مشتاق علی پنٹینگولر کرکٹ ٹورنامنٹ کے لیے بمبئی آئے تھے۔ ان دنوں وہ کرکٹ کی دنیا کے ہیرو تھے۔ ہر طالب علم ان کی پرستش کرتا تھا اور ان کی مقبولیت اور شہرت کرکٹ کے کھلاڑیوں کے لیے باعث حسد تھی۔ ایک روز بہت سے طلبہ مشتاق سے ملنے کرکٹ کلب آف انڈیا میں ان کے کمرے میں گئے۔ ان میں زلفی اور اس کا دوست عمرقریشی بھی تھا۔ وہیں سے زلفی کا مشتاق سے میل جول شروع ہوا.... چند دنوں بعد زلفی پھر مشتاق سے ملنے گیا اور اس نے مشتاق کو اپنے گھر چائے کی دعوت دی۔ مشتاق نے بڑی خوشی سے دعوت قبول کرلی۔
’زلفی کے گھر مشتاق کے آنے کا یہ پہلا موقع تھا۔ زلفی نے مشتاق کا اپنے والد، اپنی ماں اور بہنوں سے تعارف کروایا اور اس طرح مشتاق اور زلفی کے گھرانوں کے درمیان قریبی تعلقات کی ابتدا ہوئی.... آہستہ آہستہ چند سالوں میں مشتاق اور بھٹو کا گھرانہ ایک دوسرے کے بہت نزدیک آگئے۔ مشتاق کو جب بھی بمبئی آنے کا موقع ملتا وہ بھٹو کے گھر میں ہی ٹھہرتا۔ کچھ عرصے کے بعد زلفی کے دوستوں میں ایک اور کرکٹر گل محمد کا اضافہ ہوگیا۔ اس طرح کرکٹ کے حلقوں میں یہ تینوں قریبی اور گہرے دوست بن گئے۔ کرکٹ سے لگاﺅ کی وجہ سے زلفی کھلے دل سے سبھی کرکٹ کھلاڑیوں کے کھانے پلانے پر خرچ کرتا۔ انھیں ڈنر دیتا تھا۔ پکنک پر لے جاتا تھا۔‘
مشتاق علی کے صاحب زادے گلریز علی کا کہنا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے ان کے والد کو دو دفعہ پاکستانی شہریت کی پیشکش کی جو انھوں نے مسترد کردی۔ مشتاق علی نے بھٹو کی محبت میں اپنے پوتے کا نک نیم ’زلفی‘ رکھا۔ تقسیم کے بعد مشتاق علی کراچی آئے تو بھٹو کے اہلخانہ انھیں بڑی گرم جوشی سے ملے۔ اقتدار میں آنے کے بعد بھٹو، مشتاق علی کو پاکستان بلانا چاہتے تھے لیکن ایسا ممکن نہ ہوسکا۔
کرکٹ کا شوق بمبئی سے امریکہ بھی بھٹو کے ساتھ گیا۔ عمر قریشی جن کا بمبئی کے بعد امریکہ میں اعلیٰ تعلیم کے دوران بھی ان سے ربط ضبط رہا انھوں نے اپنی کتاب As Time Goes By میں ایک واقعہ کا ذکر کیا ہے جس سے دیارِ غیر میں کرکٹ سے بھٹو کے لگاﺅ کی بابت معلوم ہوتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’ایک صبح جب میں سٹوڈنٹ یونین میں بیٹھا تھا تومیں نے زلفی کو ڈیلی ٹروجن (یونیورسٹی طالب علموں کا ایک اخبار) کی کاپی لہراتے، اپنی طرف آتے دیکھا۔ وہ اس قدر پرجوش تھا، جیسے اس کے ہاتھ سانتا کلاز کی موجودگی کا کوئی ثبوت آگیا ہو۔ اس نے مجھے کورنتھین کرکٹ کلب کی طرف سے دیا گیا اشتہار دکھایا، جسے کرکٹ کے لیے لڑکوں کی تلاش تھی۔
’اس نے بڑے اشتیاق سے بتایا کہ ’لاس اینجلس میں بھی کرکٹ ہے! مجھے یہ سب جان کر زلفی جتنی ہی خوشی ہوئی۔ ہم نے اشتہار میں دیے گئے نمبر پر فون ملایا تو ہمیں آئندہ اتوار، گرفتھ پارک میں ٹرائل کے لیے رپورٹ کرنے کے لیے ہدایت کی گئی.... میں اور زلفی طریقہ کار کے مطابق ٹرائل میں شریک ہوئے اور کورنتھین کرکٹ کلب کی نمائندگی کرنے کے لیے ہمیں زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا۔‘
پاکستان کرکٹ ٹیم کے پہلے کپتان عبدالحفیظ کاردار، بھٹو دور میں صوبائی وزیر اور کرکٹ بورڈ کے چیئرمین رہے۔ انھوں نے اپنی کتاب Memoirs of an All-rounder میں بتایا ہے کہ 1942 میں ان کی بھٹو سے پہلی دفعہ ملاقات اس وقت ہوئی جب وہ پنجاب یونیورسٹی کرکٹ ٹیم کے ساتھ بمبئی گئے۔
اسی سال ان سے دوسری ملاقات کرکٹر انور حسین (تقسیم کے بعد پہلا ٹیسٹ کھیلنے والی پاکستانی ٹیم کے رکن، پاکستانی فرسٹ کلاس کرکٹ میں پہلی گیند کھیلنے والے بیٹسمین) کے گھر ہوئی جو سندر کرکٹ کلب کے کپتان تھے۔
کاردار نے لکھا کہ اس زمانے میں بھٹو کرکٹ کھیلنے کے بڑے شائق اور مشتاق علی اور ونو منکڈ سے تربیت لیتے تھے۔ کاردارکا خیال ہے کہ بھٹو یونیورسٹی آف کیلی فورنیا برکلے کے بجائے آکسفرڈ یونیورسٹی میں داخلہ لیتے تو وہ نہ صرف انگلینڈ بلکہ پاکستان میں بھی فرسٹ کلاس کرکٹ کھیل جاتے لیکن امریکہ میں سیاست ان کی دلچسپی کا محور بن گئی۔
بھٹو کی کرکٹ کھیلنے میں دلچسی تو تھی ہی لیکن کاردار نے لکھا ہے کہ وہ کرکٹ کی تاریخ سے واقفیت رکھتے تھے اور اس کھیل میں ہونے والی تبدیلیوں پر بھی ان کی نظر تھی۔
آسٹریلیوی کرکٹر کیتھ ملر بھٹو کے فیورٹ کھلاڑی تھے۔ 1956 میں کراچی ٹیسٹ کے دوران کاردار نے بھٹو کو کیتھ ملر سے متعارف کرایا۔ 1975 میں کیتھ ملر سیلاب زدگان کے لیے امدادی میچ کے سلسلے میں پاکستان آئے تو بھٹو نے انھیں تحائف پیش کیے۔ دونوں کو 19برس پہلے کی اپنی ملاقات یاد تھی۔
1972میں بھٹو نے ایک جلسے میں لاہور سٹیڈیم، لیبیا کے صدر کرنل محمد قذافی کے نام سے موسوم کیا۔ 1974میں اسلامی سربراہی کانفرنس کے دوران قذافی نے قذافی سٹیڈیم کا دورہ بھی کیا۔
1972 میں بی سی سی پی کے نئے دفتر کی افتتاحی تقریب میں بھٹو نے کہا: ’سیاست کے عظیم کھیل و فن اور کرکٹ میں خاصی مماثلت پائی جاتی ہے۔‘
مارچ 1973میں بھٹو، قذافی سٹیڈیم میں پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان ٹیسٹ میچ دیکھنے آئے۔ پاکستانی کپتان ماجد خان اور انگلینڈ کے کپتان ٹونی لیوس کے ساتھ ان کی تصویرماضی کے اچھے دنوں کی یاد دلاتی ہے۔
اس سٹیڈیم سے جڑی ایک تلخ یاد یہ ہے کہ 1978 میں جب بھٹو جیل میں تھے، قذافی سٹیڈیم میں پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے احتجاج کیا تو پولیس نے نصرت بھٹو پر لاٹھیاں برسائیں، ان کا سر پھٹ گیا، 12 ٹانکے لگے۔ ممتاز فوٹو گرافر اظہر جعفری نے ان کے خون آلود چہرے کی تصویر بنا کر شقاوت کی یہ نشانی تاریخ کے اوراق میں محفوظ کرلی۔
زمانے کی گیلری میں وہ تصویر بھی ہے جب 1996 میں قذافی سٹیڈیم میں محترمہ بینظیر بھٹو، وزیراعظم کی حیثیت سے ورلڈ کپ کی فاتح ٹیم سری لنکا کے کپتان، ارجنا رانا ٹنگا کو ٹرافی دے رہی ہیں۔