’تم جنگ کب ختم کرو گے‘ جی20 اجلاس میں روسی وزیرخارجہ سے سوال
اجلاس میں مغربی ممالک کے حکام کے علاوہ جاپان کے حکام بھی شریک ہوئے (فوٹو: روئٹرز)
یوکرین روس جنگ کے حوالے سے جی 20 ممالک کے وزرائے خارجہ کا اجلاس انڈونیشیا کے شہر بالی میں ہوا جس میں روسی حملے کے شدید مخالفین اور ماسکو کے اعلیٰ حکومتی حکام کار شریک ہوئے۔
یہ فروری میں شروع ہونے والی جنگ کے بعد اپنی نوعیت کا پہلا اجلاس ہے جس میں روسی کے اعلیٰ حکام بھی شریک ہو رہے ہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرش کے مطابق اجلاس کا زیادہ تر فوکس جنگ کے باعث عالمی معشیت پر پڑنے والے اثرات پر تھا۔
اجلاس میں مغرب کے اہم ممالک کے علاوہ جاپان کے سفارت کار بھی شریک ہوئے۔
اجلاس کے آغاز میں اس وقت عجیب صورت حال پیدا ہوئی جب روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاروف اپنے انڈونیشین ہم منصب رینٹو مرسودی سے ہاتھ ملا رہے تھے۔
’تم جنگ کب ختم کرو گے، آخر تم جنگ کیوں نہیں روک رہے۔‘
یہ الفاظ اجلاس میں شریک بعض حکام کی جانب سے ادا کیے گئے۔
اجلاس سے ایک روز قبل انڈونیشین وزیر خارجہ رینٹو نے کہا تھا کہ جی سیون نے انہیں اطلاع دی تھی کہ جمعرات کو ہونے والے ویل کم ڈنر میں لاروف کی موجودگی میں شریک نہیں ہو سکیں گے۔
اس اقدام کو میزبان ملک نے نہ صرف سمجھا بلکہ اس کو عزت کی نگاہ سے دیکھا گیا۔
رینٹو نے اجلاس کا آغاز ان الفاظ سے کیا ’یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ جس قدر جلد ممکن ہو جنگ کو ختم کرائیں اور جتنے بھی اختلافات ہیں ان کو مذاکرت کی میز پر حل کریں، جنگ کے میدان میں نہیں۔‘
خیال رہے روس نے رواں سال 24 فروری کو پڑوسی ملک یوکرین پر حملہ کیا تھا جس کے بعد سے مسلسل لڑائی جاری ہے، روس کی جانب سے اہم علاقوں پر قبضے کا دعوٰی کیا جاتا ہے جبکہ یوکرینی حکام کا کہنا ہے کہ روس کو پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔
روسی صدر پوتن کا کہنا ہے کہ یوکرین کے ہتھیار ڈالنے تک جنگ جاری رہے گی۔
دوسری جانب اس جنگ نے دنیا کے بیشتر ممالک کو تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے، امریکہ اور مغربی ممالک کھل کر یوکرین کی حمایت کر رہے ہیں اور جنگ کے لیے امدادی سامان بھی دے رہے ہیں جبکہ یورپی یونین نے یوکرین کو رکنیت کے لیے خصوصی سٹیٹس بھی دے دیا ہے۔
چونکہ یوکرین اور روس بڑے پیمانے پر اناج پیدا کرتے اور برآمد کرتے ہیں اس لیے جنگ کی وجہ سے وہاں پیداوار متاثر ہوئی ہے جس سے خوراک کے بحران کے خدشات بھی ظاہر کیے جا رہے ہیں جبکہ پابندیوں کے باعث روسی تیل کئی ممالک تک نہیں پہنچ رہا جس کے باعث عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔