پاکستان کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں ایک بار پھر مسلم لیگ ن کی حکومت ہے۔
ویسے تو وزیراعلیٰ حمزہ شہباز کو حکومت قائم رکھنے اور قانون سازی میں سیاسی چیلنجز درپیش ہیں لیکن صوبے میں یہ تاثر عام ہے کہ پولیس اور بیوروکریسی اس حکومت کو مکمل معاونت فراہم کر رہی ہے، جس کی وجہ سے انتظامی معاملات پر ان کی گرفت مضبوط ہے۔
مزید پڑھیں
اس پس منظر میں ایک مرتبہ پھر ایسی خبریں آ رہی ہیں کہ صوبے بھر میں پولیس اپنے فوری انصاف کے نظام یعنی ’پولیس مقابلوں‘ کو دوبارہ نافذ کر رہی ہے۔
حال ہی میں ایک واقعہ لاہور سے اغوا ہونے والے پانچ سالہ بچے کے ملزم شہباز کے قتل کا ہوا ہے۔
پولیس نے چند ہفتے قبل پانچ سالہ عریض کو اغواکاروں کے چنگل سے آزاد کروایا تھا جو اس کی رہائی کے بدلے 10 کروڑ روپے تاوان مانگ رہے تھے۔
پولیس کے مطابق اس واقعے میں بچے کی 25 سالہ سوتیلی نانی مہوش بھی ملوث تھی جس نے اپنے ایک دوست شہباز کے ساتھ مل کر اغوا کا منصوبہ بنایا تھا۔ عریض کے نانا نے دو شادیاں کر رکھی تھیں۔
پولیس نے بچے کی بازیابی کے بعد ایک پریس کانفرنس میں صحافیوں کو بتایا تھا کہ کیسے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے اس واردات میں ملوث اغواکاروں کا سراغ لگایا اور یہ کہ پولیس اس میں ملوث مفرور ملزمان کے تعاقب میں ہے۔
پانچ جون کو پولیس کی جانب سے میڈیا کو بتایا گیا کہ ’پولیس لاہور کے نواحی علاقے باٹا پور میں مخبری پر ملزمان مہوش اور شہباز کو پکڑنے گئی تو شہباز نے فائرنگ شروع کر دی۔ جوابی فائرنگ میں ملزم شہباز پولیس کی فائرنگ سے ہلاک ہو گیا، تاہم مہوش کو گرفتار کر لیا گیا۔‘
پانچ جون کو ہی لاہور کے علاقے فیروز والا میں پولیس نے ایک اور اشتہاری ملزم فیصل کو بھی ایک ’پولیس مقابلے‘ میں ہلاک کر دیا۔
پولیس کے اپنے ریکارڈ کے مطابق گزشتہ دو مہینوں میں پنجاب بھر میں آٹھ پولیس مقابلے ہوئے جن میں کم از کم نو افراد ہلاک ہوئے۔
پولیس کی جانب سے یہ اعداد وشمار جاری کرنے کے بعد صوبے میں امن و امان پر گہری نظر رکھنے والے حلقے ان مقابلوں کی حققیت کے بارے میں خدشات ظاہر کر رہے ہیں۔
![](/sites/default/files/pictures/July/36476/2022/pun.jpg)