بلوچستان حکومت نے اعلان کیا ہے کہ ضلع چاغی میں واقع دنیا میں سونے کے بڑے ذخائر میں سے ایک ریکوڈک منصوبے کی فزیبیلٹی پر 14 اگست سے کام شروع ہوگا۔
یہ بات وزیراعلٰی بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے ریکوڈک پر کام کرنے والی کینیڈین کمپنی بیرک گولڈ کے چیف ایگزیکٹیو مارک برسٹو کے ہمراہ کوئٹہ میں مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران بتائی۔
وزیراعلیٰ بلوچستان کا کہنا تھا کہ ’ہم سکیورٹی اور دوسرے معاملات سے نکل کر سرمایہ کاری کے دور میں داخل ہو رہے ہیں، 14 اگست کو یوم پاکستان پر (فزیبیلٹی پر) باقاعدہ کام شروع ہوگا۔‘
مزید پڑھیں
-
ریکوڈک پر اِن کیمرا بریفنگ، ’ہمیں بڑی بھیانک تصویر دکھائی گئی‘Node ID: 630666
-
بلوچستان کابینہ نے ریکوڈک منصوبے پر نئے معاہدے کی منظوری دے دیNode ID: 654221
ان کا کہنا تھا کہ نئے معاہدے کے تحت بلوچستان کو 25 فیصد حصہ، رائلٹی اور سی ایس آر کی مد میں سالانہ ایک ارب ڈالر ملیں گے جو پاکستانی 200 ارب روپے سے زائد بنتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم بیرک گولڈ کمپنی کے شکر گزار ہیں جس نے چار سال کے بجائے ایڈوانس رائلٹی دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت بلوچستان کے حصے کے 200 ارب روپے کی سرمایہ کاری بھی کرے گی اس سے بلوچستان کے لوگوں کو یہ یقین ہوسکے گا کہ ان کے وسائل انہی پر خرچ ہوں گے۔
ایران اور افغانستان کی سرحد کے قریب بلوچستان کے ضلع چاغی کے علاقے نوکنڈی میں واقع ریکوڈک پاکستان میں سونے، چاندی اور تانبے کا سب سے بڑا ذخیرہ مانا جاتا ہے اور اس کا شمار دنیا کے چند بڑے قیمتی زیر زمین ذخائر میں ہوتا ہے۔
یہ منصوبہ گزشتہ دو دہائیوں سے مختلف تنازعات کا شکار رہا ہے۔ دس سال قبل پاکستان کی سپریم کورٹ نے ریکوڈک کے منصوبے پر کام کرنے والی کمپنی ٹیتھیان کاپر کمپنی (ٹی سی سی) کے ساتھ معاہدہ کالعدم قرار دے دیا تھا جسے کمپنی نے عالمی عدالت میں چیلنج کیا۔ عالمی عدالت نے کیس ہارنے پر پاکستانی حکومت پر اربوں ڈالر جرمانہ عائد کردیا تھا۔
![](/sites/default/files/pictures/July/36481/2022/barrick_gold.png)
تاہم رواں سال مارچ میں پاکستانی حکومت اور ٹی سی سی کی ایک شراکت دار کینیڈین کمپنی بیرک گولڈ کے درمیان عدالت سے باہر معاملات طے پانے کے بعد بلوچستان کابینہ اور وفاقی کابینہ نے نئے معاہدے کی منظوری دی تھی۔
بیرک گولڈ کمپنی کے صدر اور چیف ایگزیکٹیو مارک برسٹو نے منگل کو کوئٹہ میں وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو اور صوبائی حکومت کے دیگر حکام سے ملاقات کی اور نئے معاہدے کو قانونی شکل دینے اور منصوبے کی فزیبیلٹی پر کام شروع کرنے سے متعلق معاملات پر گفتگو کی۔
ملاقات کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مارک برسٹو کا کہنا تھا کہ ریکوڈک کے حتمی معاہدے کے حوالے سے ابھی قانون سازی اور سپریم کورٹ کی توثیق ہونا باقی ہے تاہم بنیادی معاملات اور کلیدی اصولوں پر اتفاق پالیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ٹی وی پر بلوچستان اور پاکستان کی حقیقی تصویر نہیں دکھائی جاتی۔ بلوچستان میں ہمیں خوش آمدید کہا گیا۔ میں نے ریکوڈک کا دورہ کیا اور وہاں بھی ہمارا استقبال کیا گیا۔
مارک برسٹو کا کہنا تھا کہ ‘ہمارے لیے ریکوڈک کی شروعات کچھ مشکل تھی۔ ریکوڈک کی کہانی ہر ایک کے لیے ایک سبق ہے اس دنیا کے لیے بھی جہاں لوگوں نے لڑائی میں بہت زیادہ وقت صرف کیا لیکن بات چیت نہیں کی کیونکہ جب آپ بات کرتے ہیں تو آپ حل تلاش کرتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں ریکوڈک منصوبے کے حل کا حصہ بننے پر فخر ہے جس کے تحت بیرک گولڈ اس ’ورلڈ کلاس پروجیکٹ‘ میں سرمایہ کاری کرے گا اور اس میں بلوچستان پاکستان حکومت سمیت تمام شراکت داروں کا فائدہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’آج کا ریکوڈک معاہدہ 2012 کے مقابلے میں ہر ایک کے لیے بہت بہتر ہے۔ سبھی کا یہ ماننا ہے کہ ہمیں بلوچستان کو ایک حقیقی شراکت دار بنانا ہوگا۔‘
![](/sites/default/files/pictures/July/36481/2022/000_32et8u7.jpg)
مارک برسٹو کا کہنا تھا کہ ’ہم واقعی خوش ہیں کہ بلوچستان کو ریکوڈک کا 25 فیصد حصہ ملے گا۔ اہم بات یہ ہے کہ دیگر شراکت دار اور حکومت پاکستان بلوچستان کے حصے کی سرمایہ کاری کرے گی اور بلوچستان کو فوری طور پر فائدہ حاصل ہونے کا انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔‘
کالعدم تنظیم کی دھمکی اور امن و امان سے متعلق خدشات کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے غیرملکی کمپنی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ’آپریٹر سے رابطہ آپ کی بہترین سیکیورٹی ہے۔ ہم نے بلوچستان کے لوگوں کے ساتھ رشتہ بنایا ہے۔ اعتراض کرنے والے ہمیشہ ہوتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’بیرک گولڈ کمپنی کوئی آرمی نہیں اورنہ ہی بندوقوں میں سرمایہ کاری کرنے پر یقین رکھتی ہے۔ ہم حکومت پاکستان اور حکومت بلوچستان میں اپنے شراکت داروں کی طرف دیکھتے ہیں کہ وہ نہ صرف ہمیں بلکہ منصوبے پر کام کرنے والے اس ملک کے کارکنوں اور مینجرز کو تحفظ فراہم کریں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے یقین ہے کہ اگر ہم اسے صحیح وجہ سے کرتے ہیں اور نتائج دیتے ہیں تو لوگ اس منصوبے کا احترام کریں گے۔‘
مارک برسٹو کا کہنا تھا کہ حکومت اس کان کنی کا حصہ ہے اور یہ کوئی غیر ملکی سرمایہ کاری نہیں، یہ ایک غیر ملکی کمپنی ہے جو پاکستانی عوام اور بلوچستان کے لوگوں کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے۔
اس موقع پر صحافی کے سوال پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے لوگ مہمان نواز ہیں وہ اپنے مہمانوں کی حفاظت اور احترام کرتے ہیں اور سرمایہ کاروں کو نقصان نہیں دیں گے۔
’بلوچستان حکومت اور عوام مل کر سرمایہ کاروں کی حفاظت کریں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ گلے شکوے اپنی جگہ ہیں۔ بلوچستان میں شورش کسی اور وجہ سے ہے۔ بیرونی سرمایہ کاروں کو کوئی تنگ نہیں کرے گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ عالمی عدالت میں کیس ہارچکے تھے تاہم اس کے باوجود ہم نے ایک اچھا معاہدہ کیا اور بلوچستان کا حصہ بڑھایا۔
![](/sites/default/files/pictures/July/36481/2022/pid.png)