ریکوڈک پر اِن کیمرا بریفنگ، ’ہمیں بڑی بھیانک تصویر دکھائی گئی‘
ریکوڈک پر اِن کیمرا بریفنگ، ’ہمیں بڑی بھیانک تصویر دکھائی گئی‘
منگل 28 دسمبر 2021 12:39
زین الدین احمد -اردو نیوز، کوئٹہ
ریکوڈک منصوبے کے نئے ممکنہ معاہدے اور پیش رفت پر صوبائی اسمبلی کو اِن کیمرا بریفنگ دی گئی ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
بلوچستان میں سونے اور تانبے کے اربوں ڈالر مالیت کے ریکوڈک منصوبے سے متعلق نئے ممکنہ معاہدے اور پیش رفت پر صوبے کی اسمبلی کو اِن کیمرا بریفنگ دی گئی ہے۔
نو گھنٹے سے زائد جاری رہنے والے اِن کیمرا اسمبلی اجلاس میں حکومت اور حزب اختلاف کی جماعتوں کے 42 اراکین اسمبلی نے شرکت کی جبکہ 13 ارکان غیر حاضر رہے۔ کسی بھی سرکاری یا غیر سرکاری میڈیا کے نمائندوں کو اجلاس کی کوریج کی اجازت نہیں دی گئی۔
اجلاس سے ایک روز قبل سیکریٹری اسمبلی کی جانب سے چار نکات پر مشتمل ایس او پیز جاری کیے گئے جن پر عمل کرتے ہوئے تمام ارکان اسمبلی کو اپنے موبائل فون اسمبلی کے گیٹ پر ہی عملے کو جمع کرانے کا پابند کیا گیا۔ ارکان اسمبلی پر سٹاف ممبر ساتھ لے جانے اور اسمبلی سیکریٹریٹ اور ایم پیز ہاسٹل میں بھی تمام وزٹرز اور سرکاری و غیر سرکاری مسلح محافظوں کے داخلے پر پابندی لگائی گئی۔
بلوچستان حکومت کے ترجمان کی جانب سے جاری کیے گئے بیان کے مطابق اس بریفنگ کا اہتمام صوبائی حکومت کی جانب سے کیا گیا تھا جس کا مقصد عوامی نمائندوں کو قومی اہمیت کے حامل اس منصوبے پر اعتماد میں لینا تھا۔
ترجمان کے مطابق 9 گھنٹے سے زائد جاری رہنے والے اس طویل سیشن میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل اور دیگر متعلقہ وفاقی اداروں کے حکام نے بریفنگ دی۔ ’ان کیمرا بریفنگ کے ذریعے اراکین اسمبلی کو مشاورت اور رائے دینے کا پلیٹ فارم مہیا کیا گیا۔‘
ترجمان کا کہنا تھا کہ ریکوڈک پر عالمی اداروں کے فیصلوں اور ان پر عمل درآمد سے متعلق پیشرفت سے بھی اراکین کو آگاہ کیا گیا جس کے بعد سوال و جواب کا سیشن ہوا اور اراکین کے پوچھے گئے سوالات کے تفصیلی جوابات دیے گئے۔
ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ صوبے کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اراکین اسمبلی کے لیے اس نوعیت کی ان کیمرا بریفنگ کا اہتمام کیا گیا۔
ترجمان نے اس اقدام کو صوبائی حکومت کا جرات مندانہ اقدام قرار دیا اور کہا کہ موجودہ صوبائی حکومت بند کمروں میں فیصلے کرنے پر یقین نہیں رکھتی۔ ’ریکوڈک سمیت تمام اہم صوبائی امور پر مشاورت سے فیصلے ہوں گے۔ فیصلوں میں حزب اختلاف سمیت تمام جماعتوں اور اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیں گے۔‘
خیال رہے کہ پاکستان کی سپریم کورٹ نے جنوری 2013 میں ریکوڈک کے ذخائر استعمال کرنے کے آسٹریلوی کمپنی ٹیتھیان کاپر کمپنی (ٹی سی سی) اور بلوچستان حکومت کے معاہدے کو کالعدم قرار دیا تھا۔
عدالت نے قرار دیا تھا کہ جولائی 1993 میں ہونے والا یہ معاہدہ ملکی قوانین کے خلاف ہے اور اس کے بعد اس میں کی گئی تمام بھی ترامیم غیر قانونی اور معاہدے کے منافی ہیں۔
سنہ 2011 میں نواب اسلم رئیسانی کی حکومت نے کمپنی کی جانب سے کان کنی کے لیے لائسنس کی درخواست مسترد کی تھی۔ بلوچستان حکومت اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کے خلاف ٹیتھیان کاپر کمپنی (ٹی سی سی) نے جنوری 2012ء میں ورلڈ بینک گروپ کے انٹرنیشنل سینٹر برائے سیٹلمنٹ آف انویسٹمنٹ ڈسپیوٹس (آئی سی ایس آئی ڈی) سے رجوع کیا۔
سرمایہ کاری سے متعلق اس عالمی ثالثی عدالت نے سات سال بعد فیصلہ سناتے ہوئے جولائی 2019 میں پاکستان پر تقریبا چھ ارب ڈالر جرمانہ عائد کیا جو پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار کے دو فیصد کے برابر رقم ہے۔
اس کے فوری بعد ٹی سی سی نے اس فیصلے کے نفاذ کے لیے کارروائی شروع کردی تھی اور برٹش ورجن آئی لینڈ کی عدالت نے دسمبر 2020 میں پی آئی اے کے نیویارک اور پیرس میں ہوٹل سمیت پاکستانی اثاثوں کو منجمد کرنے کا حکم دیا تاہم بعد میں یہ فیصلہ منسوخ ہوا اور پاکستان نے عالمی عدالت سے مئی 2021 تک مشروط حکم امتناع بھی حاصل کر لیا۔
گذشتہ کئی ماہ سے ٹیتھیان کاپر کمپنی اور پاکستانی حکومت کے درمیان عدالت سے باہر معاملات طے کرنے کی کوششوں کی بازگشت بھی سنائی دے رہی ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ تقریباً ایک ماہ قبل 30 نومبر کو بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں اراکین نے قرارداد کے ذریعے ریکوڈک سے متعلق نئے مجوزہ معاہدے پر بلوچستان اسمبلی کو اعتماد میں لینے کا مطالبہ کیا۔
اس اجلاس میں حزب اختلاف کے اراکین نےخدشہ ظاہر کیا تھا کہ وفاقی حکومت بلوچستان حکومت کو اعتماد میں لیے بغیر ریکوڈک پر نیا معاہدہ کرنے جا رہی ہے اور ریکوڈک اور صوبے کے دیگر قدرتی وسائل اور معدنیات کے حقیقی مالک ہونے کے باوجود فیصلہ سازی میں بلوچستان کے لوگوں کو شامل نہیں کیا جا رہا۔
وفاق میں برسر اقتدار پاکستان تحریک انصاف کے بلوچستان اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند نے اجلاس میں شرکت کے بعد ٹیلیفون پر اردو نیوز کو بتایا کہ ’ریکوڈک سے متعلق ہمیں بڑی بھیانک تصویر دکھائی گئی اور ہمیں بتایا گیا کہ عالمی ثالثی عدالت کے فیصلے کے تحت پاکستان کی وفاقی حکومت کو غیرملکی کمپنی کو 10 ارب ڈالر جبکہ بلوچستان کو 4 ارب ڈالر ادا کرنے ہوں گے اور رقم ادا نہ کرنے کی صورت میں یومیہ 60 لاکھ ڈالر سود لگے گا جبکہ امریکہ میں روز ویلٹ ہوٹل سمیت پاکستان کے بیرون ملک اثاثے بھی ضبط یا منجمد ہوں گے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’بظاہر ان کی نیت یہی ہے کہ اسی کمپنی کے ساتھ معاملات طے کیے جائیں گے اور جرمانہ حکومت کے حصے میں سے کاٹا جائے گا۔‘
سردار یار محمد رند نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’ریکوڈک پر از سرنو معاہدے کے نکات حوصلہ افزا نہیں لگ رہے، ماضی کی حکومت کی غلطیوں کا خمیازہ صوبے، ملک اور عوام نے بھگتنا ہے۔‘
پی ٹی آئی رہنما نے مطالبہ کیا ہے کہ ریکوڈک پر از سرنو معاہدے سے قبل ٹُرتھ کمیشن بنا کر ماضی میں ہونے والے غلط فیصلوں اور اس کے ذمہ داروں کا تعین کیا جائے۔ اس منصوبے پر ان کیمرا بریفنگ کی بجائےعام اجلاس میں حقائق اور نئے معاہدے کے نکات بلوچستان اور پاکستان کے عوام کے سامنے لائے جائیں اور عوام کو اعتماد میں لے کر فیصلے کیے جائیں۔
اردو نیوز نے بلوچستان اسمبلی میں جمعیت علمائے اسلام سے تعلق رکھنے والے قائد حزب اختلاف ملک سکندر ایڈووکیٹ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ صوبے کی دوسری بڑی حزب اختلاف کی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی کے رکن اسمبلی احمد نواز بلوچ سے جب اس نمائندے نے پوچھا کہ وہ بریفنگ سے مطمئن ہیں یا نہیں تو انہوں نے کہا کہ وہ کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتے۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کے رکن ثناء اللہ بلوچ نے اردو نیوز کو ٹیلیفون پر بتایا کہ وہ بیرون ملک ہونے کی وجہ سے اجلاس میں شریک نہیں ہوسکے تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’صوبائی اسمبلی نے 2019 اور ایک ماہ قبل دوسری مرتبہ اس حوالے سے قرارداد منظور کی تھی، اسمبلی کے ارکان کو اس اہم مسئلے پر اعتماد میں لینا ہماری کامیابی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ریکوڈک کا کیس تقریباً ایک دہائی سے عدالتوں میں چلا آ رہا ہے۔ وفاقی حکومت اس کیس کو دیکھ رہی تھی اور صوبے میں چند ہی لوگوں کو اس سلسلے میں معلومات تھیں۔
انہوں نے کہا کہ انہیں معلوم نہیں کہ بریفنگ میں کیا بتایا گیا لیکن سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے کہ عالمی سطح پر بولی دیے بغیر اس منصوبے پر دوبارہ کام نہیں کیا جا سکتا۔
ریکوڈک کیس میں سپریم کورٹ اور عالمی عدالت میں بلوچستان حکومت کی نمائندگی کرنے والے سابق ایڈووکیٹ جنرل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر امان اللہ کنرانی نے ریکوڈک پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل اور وفاقی اداروں کے نمائندوں کی جانب سے بلوچستان اسمبلی کو بریفنگ دینے کے اقدام پر سخت تنقید کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا آنا اور اسمبلی کو بریفنگ دینا غیرآئینی اور صوبائی خودمختاری کے منافی ہے۔‘ ان کے بقول 1948 کے آئل اینڈ گیس ریگولیشنز کے سیکشن 5 ،1970 کے بلوچستان مائننگ کنسیشن رولز اور آئین کے تحت معدنیات بشمول ریکوڈک بلوچستان کی ملکیت ہے۔ اس پر فیصلے کا اختیار بھی وفاق نہیں بلکہ صوبے کا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’2013 میں نواب اسلم رئیسانی کی حکومت کے خاتمے کے بعد ریکوڈک کے تمام ریکارڈ کو غائب کر دیا گیا اب اس منصوبے سے متعلق تمام فیصلے بھی وفاق کے کچھ ادارے لے رہے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ لوگوں کو بھاری جرمانے کے نام پر ڈرایا جا رہا ہے۔ ’عالمی ثالثی عدالت کے فیصلے ہو بہو قبول نہیں کیے جاتے۔ بیرون ملک عدالتی فیصلے پاکستان کے 2011ء کے فارن ڈگری قانون کے تحت عملدرآمد سے پہلے متعلقہ ہائی کورٹ میں پیش کیے جاتے ہیں۔ اگر یہ فیصلہ بھی بلوچستان ہائی کورٹ میں پیش کیا جاتا تو وہ سپریم کورٹ کے جنوری 2013ء کے فیصلے کو برقرار رکھتی۔‘
تاہم ترجمان حکومت بلوچستان نے ان کیمرا بریفنگ پر تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ حکومت صوبے کے حقوق و وسائل کے تحفظ کے لیے پوری طرح پر عزم ہے۔
سینیئر صحافی و تجزیہ کار شہزادہ ذوالفقار سمجھتے ہیں کہ ’اس اہم منصوبے پر منتخب نمائندوں کو اعتماد میں لیا جانا بہتر اقدام ہے مگر طریقہ کار غلط ہے جس سے شکوک و شبہات اور خدشات جنم لے رہے ہیں کہ ضرور دال میں کچھ کالا ہے۔‘
ان کے بقول ’ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی حکومت نے اپنے دور میں عالمی عدالت میں پاکستان کی وکالت کرنے والے احمر بلال صوفی کے ذریعے اوپن بریفنگ کا اہتمام کیا تھا۔‘
شہزادہ ذوالفقار کا کہنا تھا کہ ’اس خفیہ بریفنگ کی چیزیں بھی باہر آئیں گی مگر ہوسکتا ہے وہ صحیح طریقے سے سامنے نہ آئیں جس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔‘
تاہم حزب اختلاف کے ثناء اللہ بلوچ سمجھتے ہیں کہ ان کیمرا بریفنگ کی اپنی وجوہات ہوسکتی ہیں۔
ان کے بقول ’شاید کچھ ایسی باتیں ہیں جو ابھی حتمی نہیں ہوئیں یقینا بلوچستان اسمبلی کے سامنے آپشن رکھے گئے ہوں گے، اس لیے جب تک حتمی فیصلہ نہیں ہوتا یہ کہنا درست نہیں کہ بلوچستان کے مفادات کا سودا کیا جا رہا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’بلوچستان اسمبلی کے تمام اراکین کو خریدا نہیں جا سکتا، ایم پی ایز اپنی جماعتوں کے پاس جائیں گے۔ اگر نیا معاہدہ بلوچستان اور پاکستان کے مفادات سے متصادم، عالمی قوانین اور رائلٹی پرافٹ سے ہٹ کر ہوا تو ہم قبول نہیں کریں گے اور ہر فورم پر احتجاج کریں گے۔‘
ریکوڈک منصوبہ کیا ہے؟
'ریکوڈک' ایران اور افغانستان کی سرحد کے قریب بلوچستان کے ضلع چاغی کے علاقے نوکنڈی میں ٹیتھیان کی اراضیاتی پٹی پر واقع ہے۔ یہ پاکستان میں سونے، چاندی اور تانبے کا سب سے بڑا ذخیرہ مانا جاتا ہے اور اس کا شمار دنیا کے چند بڑے قیمتی زیر زمین ذخائر میں ہوتا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق ریکوڈک میں ایک کروڑ 30 لاکھ ٹن تانبے کے ذخائر اور دو کروڑ 30 لاکھ اونس سونا موجود ہے۔
ٹھیتان کاپر کمپنی کی ایک رپورٹ کے مطابق ریکوڈک کا ’اقتصادی طور پر قابلِ کان کن حصہ‘ 2.2 ارب ٹن جبکہ ایک دوسری رپورٹ کے مطابق چار ارب ٹن سے زائد ہے، جس میں اوسطاً تانبا 0.53 فیصد ہے جبکہ سونے کی مقدار 0.3 گرام فی ٹن ہے۔ اس منصوبے کی کل عمر کا تخمینہ 56 سال لگایا گیا ہے۔
کمپنی نے ان قیمتی دھاتوں کے ذخائر کی کل مالیت کا تخمینہ ایک سو ارب ڈالر لگایا تھا تاہم امان اللہ کنرانی کا کہنا ہے کہ کمپنی نے ذخائر کا تخمینہ کئی گنا کم ظاہر کیا ہے۔ ان کے بقول جیالوجیکل سروے آف پاکستان اور پاکستانی جوہری سائنس دان ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے سپریم کورٹ کو بتایا تھا کہ ریکوڈک میں 600 کلومیٹر رقبے پر پھیلے ذخائر کی مالیت ایک ہزار ارب ڈالر سے زائد ہے۔
ریکوڈک معاہدے پر تنازع کیا ہے؟
سال 1993 میں بلوچستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور بروکن ہلز پروپرائیٹری (پی ایچ پی) نامی امریکی کمپنی کے مابین چاغی ہلز ایکسپلوریشن جوائنٹ وینچر ایک معاہدہ طے پایا تھا۔ بی ایچ پی نے معدنیات کی کھوج کے لیے لائسنس حاصل کر کے کم گہری کھدائی پر ہی سونے اور تانبے کے ذخائر دریافت کر لیے۔
چاغی ہلز ایکسپلوریشن معاہدے کی شقوں میں دستیاب رعایتوں کے تحت بی ایچ پی نے سال 2000 میں منکور ریسورسز نامی کمپنی کو منصوبے میں شامل کیا۔ بعد میں تمام شیئرز ٹیتھیان کاپر کمپنی (ٹی سی سی) نے خرید کر اس کمپنی کی ملکیت حاصل کر لی۔
ٹیتھیان کاپر کمپنی دراصل دنیا میں کانکنی کی بڑی کمپنیوں میں سے ایک کینیڈا کے بیرک گولڈ اور چلی کے اینٹوفاگاسٹا منرلز پر مشتمل کنسورشیم کی مشترکہ ملکیت ہے۔
امان اللہ کنرانی کے مطابق ’اس کنسورشیم نے قرض برطانوی بینکوں سے لیے۔ ان کے ماہرین چلی اور کینیڈا کے ہیں جبکہ دفاتر آسٹریلیا میں ہیں۔‘
ان کے بقول ٹی سی سی نے اپنی رجسٹریشن آسٹریلیا میں اس لیے کرا رکھی تھی کیونکہ آسٹریلیا اور پاکستان کے درمیان 1998 میں سرمایہ کاری کے تحفظ کا دو طرفہ معاہدہ (بی آئی ٹی) دستخط ہوا تھا۔
قانون دان امان اللہ کنرانی کے مطابق کمپنی اس بی آئی ٹی کا فائدہ اٹھانا چاہتی تھی اس لیے جب بلوچستان حکومت نے انہیں لائسنس نہیں دیا اور سپریم کورٹ نے معاہدہ کالعدم قرار دیا تو انہوں نے عالمی ثالثی عدالت کے ذریعے آسٹریلیا کے ساتھ ہونے والے اسی معاہدے کی بنیاد پر مقدمہ جیتا اور عدالت نے 1993ء سے 2011ء تک ہونے والے اخراجات اور نقصانات کی مد میں اربوں ڈالر جرمانہ عائد کیا۔
کمپنی کی ویب سائٹ کے مطابق ٹی سی سی نے 2006ء سے اس منصوبے پر کام شروع کیا اور 220 ملین امریکی ڈالر یعنی 39 ارب روپے کی سرمایہ کاری کی۔
حکومت کا مؤقف تھا کہ 1993ء میں معاہدہ صرف ڈرلنگ کے لیے ہواتھا لیکن غیر ملکی کمپنی نے رشوت دے کر بلوچستان مائننگ کنسشین رولز میں غیر قانونی ترامیم کرائیں اور مزید کام کرانے کے لیے ایک دوسری کمپنی ٹیتھیان سے معاہدہ کر لیا جس کے تحت 33لاکھ 47 ہزار ایکڑ علاقے میں ہونے والی تمام دریافتوں کی آمدنی کا 75 فیصد حصہ کمپنی کو جبکہ کل آمدنی کا صرف پچیس فیصد حصہ اور دو فیصد رائلٹی بلوچستان کو ملنا تھی۔
کمپنی کی جانب سے معاہدے میں ایک شق یہ بھی شامل کرائی گئی تھی کہ وہ تمام خام سونے اور تانبے کو ریفائننگ کے لیے پاکستان سے باہر لے جائے گی۔
رئیسانی حکومت نے کمپنی کی جانب سے ان مبینہ بے قاعدگیوں، مقامی سطح پر خام مال کی پروسیسنگ کے لیے ریفائنری نہ لگانے اور حصہ بڑھانے سے انکار کے بعد 2011ء میں ٹی سی سی کی کانکنی کےلیے لائسنس کی درخواست مسترد کر دی تھی۔
جنوری 2013 میں سپریم کورٹ نے بھی معاہدے میں بے ضابطگیوں اور قوانین کی خلاف ورزی پر ٹی سی سی کے ساتھ معاہدے کو کالعدم قرار دیا۔
نومبر 2020ء میں پاکستان کے احتساب کے قومی ادارے (نیب) نے 1993ء میں کیے گئے معاہدے میں قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی پر مقدمہ بنایا۔
کوئٹہ کی احتساب عدالت میں دائر مقدمے میں سابق گورنر بلوچستان اور سابق چیف سیکریٹری سمیت حکومتِ بلوچستان کے سابق اعلیٰ حکام اور غیر ملکی کمپنی کے عہدے داروں سمیت 26 افراد کو نامزد کیا گیا۔
نیب کے مطابق اس معاہدے کی شرائط کو مزید مستحکم کرنے کے لیے نہ صرف غیر قانونی طریقے سے بلوچستان مائننگ کنسیشن رولز میں ترامیم کی گئیں، بلکہ بار بار غیر قانونی طور پر ذیلی معاہدے کرکے بلوچستان حکومت کے عہدے داروں اور افسران نے ٹیتھیان کاپر کمپنی نامی نئی کمپنی کو فائدہ پہنچایا۔ پاکستانی حکومت نے عالمی عدالت میں ٹی سی سی پر کرپشن کے انہی الزامات کو بطور ثبوت بھی پیش کیا تاہم عدالت نے ان الزامات کو رد کیا اور فیصلہ ٹی سی سی کے حق میں دیا۔
سات سال تک جاری رہنے والے اس مقدمہ بازی سے پاکستان اور بلوچستان حکومت کے ہاتھ کچھ نہیں آیا اربوں روپے کے اضافی اخراجات ضرور ہوئے۔
بلوچستان اسمبلی میں محکمہ معدنیات حکومت بلوچستان کی جانب سے پیش کردہ معلومات کے مطابق 2013 سے 2020ء تک مقدمے کی پیروی پر بلوچستان حکومت کے پانچ ارب 33 کروڑ روپے کے اخراجات آئے۔
بلوچستان کی سیاسی جماعتوں اور وکلاء کا ردعمل
نیشنل پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور سابق وزیراعلیٰ نواب محمد اسلم رئیسانی نے اپنے رد عمل میں کہا ہے کہ ریکوڈک کا ایک منصوبے کے تحت سودا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
نواب رئیسانی کا کہنا تھا کہ سیندک منصوبے سے نہ مقامی لوگوں کو کوئی فائدہ پہنچ سکا اور نہ ہی بلوچستان کے عوام کی حالت بدل سکی اسی لیے اپنے دور میں ریکوڈک معاہدے کی مخالفت کی۔ ’بہتر یہ ہے کہ مقامی سطح پر ریفائنری بنا کر منصوبے کو خود چلایا جائے۔‘
دوسری جانب بلوچستان کی وکلاء تنظیموں کی جانب سے ریکوڈک سے متعلق مجوزہ معاہدے کے خلاف منگل کو عدالتوں کے بائیکاٹ کیا جا رہا ہے۔
بلوچستان بار کونسل کے وائس چیئرمین قاسم گاجیزئی ایڈووکیٹ نے پیر کو ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر مجید ایڈووکیٹ، بلوچستان بار کونسل کے ارکان کے ہمراہ کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان اسمبلی کے ان کیمرہ اجلاس پر نہ صرف بار کونسل بلکہ بلوچستان کے عوام کو بھی تحفظات ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے رو سے صوبہ خودمختار ہے اور اس طرح کے خفیہ معاہدوں سے نہ صرف احساس محرومی میں مزید اضافہ ہوگا بلکہ بلوچستان کے عوام کا وفاق اور صوبائی حکومتوں سے اعتماد بھی اٹھ جائے گا۔