Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلوچستان کابینہ نے ریکوڈک منصوبے پر نئے معاہدے کی منظوری دے دی

2011 میں نواب اسلم رئیسانی کی حکومت نے کمپنی کی جانب سے کان کنی کے لیے لائسنس کی درخواست مسترد کی تھی۔ (فوٹو: ہینڈآؤٹ)
بلوچستان حکومت نے سونے اور تانبے کے اربوں ڈالر مالیت کے ریکوڈک منصوبے پر نئے معاہدے اور سٹیلمنٹ کی منظوری دے دی  ہے۔
وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق یہ منظوری وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو کے زیر صدارت کابینہ کے خصوصی اجلاس میں دی گئی ہے۔
سرکاری طور پر معاہدے کے نکات کی کوئی تفصیل جاری نہیں کی گئی تاہم وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ کے بیان میں بتایا گیا ہے کہ معاہدے اور سیٹلمنٹ کی تفصیلات اتوار کو وزیراعظم کی زیر صدارت منعقد ہونے والے اجلاس کے بعد جاری کی جائیں گی۔
وزیر تعلیم بلوچستان نصیب اللہ مری نے اردو نیوز کو ٹیلیفون پر بتایا ہے کہ ریکوڈک کا نیا معاہدہ اس منصوبے پر ماضی میں کام کرنے والی ٹھیتیان کاپر کمپنی (ٹی سی سی) کے دو شراکت داروں میں سے ایک کے ساتھ کیا جارہا ہے اور اس میں پچاس فیصد حصہ کمپنی کا جبکہ باقی پچاس فیصد حصہ وفاقی اور بلوچستان حکومت کا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ غیرملکی کمپنی اور پاکستان کی وفاقی حکومت منصوبے پر سرمایہ کاری کرے گی۔ بلوچستان کو بغیر کسی سرمایہ کاری کے 25 فیصد حصہ ملے گا، جبکہ رائلٹی اور کارپوریٹ سوشل رسپانسبلٹی ( سی ایس آر ) کی مد میں بھی 7 سے 8 فیصد حصہ صوبے کو دیا جائے گا اس طرح مجموعی طر پر بلوچستان کو 32 سے 33 فیصد حصہ ملے گا۔
نصیب اللہ مری نے بتایا کہ غیرملکی کمپنی کو ریکوڈک میں تقریباً 100مربع کلومیٹر علاقے میں سونے، چاندی اور تانبے کے ذخائر کی کانکنی کی اجازت ہوگی۔
اردو نیوز نے  معاہدے کی مزید تفصیلات حاصل کرنے کے لیے بلوچستان کابینہ کے کئی دیگر ارکان سے بھی رابطے کیا تاہم انہوں نے اس معاملے پر کسی سوال کا جواب دینے سے انکار کیا۔

نصیب اللہ مری نے بتایا کہ غیرملکی کمپنی کو ریکوڈک میں تقریباً 100مربع کلومیٹر علاقے میں کانکنی کی اجازت ہوگی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ سے جاری ہونے والے بیان میں مزید بتایا گیا ہے کہ ’کابینہ کے اجلاس میں معاہدے کے تمام پہلوؤں اور نکات کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ کابینہ کے ارکان نے معاہدے میں موجودہ صوبائی حکومت کے ٹھوس مؤقف کی پذیرائی اور بلوچستان کے حقوق و مفادات کے تحفظ پر اطمینان کا اظہار کیااور اس بات پر وزیراعلیٰ اور ان کی ٹیم کو مبارکباد دی۔‘
بیان کے مطابق کابینہ کو صوبائی سیکریٹری معدنیات نے مجوزہ معاہدے اور منصوبے پر عملدرآمد سے بلوچستان کو حاصل ہونے والے فوائد پر بریفنگ دی۔
ترجمان حکومت بلوچستان فرح عظیم شاہ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ریکوڈک کے معاملے میں اہم پیشرفت صوبے میں سرمایہ کاری اور مائننگ  کے شعبے کے لئے سنگ میل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ریکوڈک معاہدے سے بلوچستان ترقی کی نئی راہ پر گامزن ہوجائےگا۔
وزیرتعلیم بلوچستان نصیب اللہ مری نے بتایا کہ نیا معاہدے تقریباً انہی نکات کی بنیاد پر کیا جارہا ہے جو بلوچستان اسمبلی کو گزشتہ سال دسمبر میں ہونے والے ان کیمرا اجلاس میں بتائے گئے تھے۔
یاد رہے کہ 27 دسمبر 2021ء کو بلوچستان اسمبلی کی تاریخ کا پہلا ان کیمرا اجلاس ہوا تھا جس میں ارکان اسمبلی کو ایڈیشنل اٹارنی جنرل اور دیگر متعلقہ وفاقی اداروں کے حکام نے بریفنگ دی۔ 9 گھنٹے تک جاری رہنے والے اس اجلاس میں میڈیا کے نمائندوں کو جانے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔

حکومت کے اعلامیے کے مطابق کابینہ کے اجلاس میں معاہدے کے تمام پہلوؤں اور نکات کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اجلاس کو بتایا گیا تھا کہ ٹھیتیان کاپر کمپنی کی ملکیت دو کمپنیوں کینیڈا کی بیرک گولڈ اور چلی کی انٹافگوسٹا کمپنی کے پاس ہے جس میں سے ایک شراکت دار بیرک گولڈ بعض شرائط پر معاہدے پر آمادہ ہے جبکہ چلی کی انٹا فگوسٹا تیار نہیں۔ اس لیے اسے عالمی عدالت کی جانب سے پاکستان پر عائد کئے گئے چھ ارب ڈالر جرمانے میں سے آدھا یعنی تین ارب ڈالر ادا کرنا ہوں گے۔
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے بھی پچھلے سال بلوچستان اسمبلی کے ان کیمرا اجلاس کے بعد ایک ٹویٹ میں اعلان کیا تھا کہ ’حکومت بلوچستان کی خاطر وفاقی حکومت ریکوڈک پراجیکٹ پر اٹھنے والا تمام مالی بوجھ اٹھائے گی۔‘
خیال رہے کہ پاکستان کی سپریم کورٹ نے جنوری 2013 میں ریکوڈک کے ذخائر استعمال کرنے کے آسٹریلوی کمپنی ٹیتھیان کاپر کمپنی (ٹی سی سی) اور بلوچستان حکومت کے معاہدے کو کالعدم قرار دیا تھا۔عدالت نے قرار دیا تھا کہ جولائی 1993 میں ہونے والا یہ معاہدہ ملکی قوانین کے خلاف ہے اور اس کے بعد اس میں کی گئی تمام بھی ترامیم غیر قانونی اور معاہدے کے منافی ہیں۔
2011 میں نواب اسلم رئیسانی کی حکومت نے کمپنی کی جانب سے کان کنی کے لیے لائسنس کی درخواست مسترد کی تھی۔ بلوچستان حکومت اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کے خلاف ٹیتھیان کاپر کمپنی (ٹی سی سی) نے جنوری 2012ء میں ورلڈ بینک گروپ کے انٹرنیشنل سینٹر برائے سیٹلمنٹ آف انویسٹمنٹ ڈسپیوٹس (آئی سی ایس آئی ڈی) سے رجوع کیا تھا۔
سرمایہ کاری سے متعلق اس عالمی ثالثی عدالت نے سات سال بعد فیصلہ سناتے ہوئے جولائی 2019 میں پاکستان پر تقریبا چھ ارب ڈالر جرمانہ عائد کیا جو پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار کے دو فیصد کے برابر رقم ہے۔پاکستان کے لئے اتنی خطیر رقم کی ادائیگی انتہائی مشکل تھی اس لیےادائیگی سے بچنے کے لئے غیرملکی کمپنی کے ساتھ نئے سرے سے مذاکرات شروع کیے گئے جس میں گزشتہ سال پیشرفت ہوئی۔
ریکوڈک منصوبہ کیا ہے؟
’ریکوڈک‘ ایران اور افغانستان کی سرحد کے قریب بلوچستان کے ضلع چاغی کے علاقے نوکنڈی میں ٹیتھیان کی اراضیاتی پٹی پر واقع ہے۔ یہ پاکستان میں سونے، چاندی اور تانبے کا سب سے بڑا ذخیرہ مانا جاتا ہے اور اس کا شمار دنیا کے چند بڑے قیمتی زیر زمین ذخائر میں ہوتا ہے۔

پاکستان کی سپریم کورٹ نے 2013 میں ریکوڈک پر آسٹریلوی کمپنی اور بلوچستان حکومت کے  درمیان معاہدے کو کالعدم قرار دیا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ایک رپورٹ کے مطابق ریکوڈک میں ایک کروڑ 30 لاکھ ٹن تانبے کے ذخائر اور دو کروڑ 30 لاکھ اونس سونا موجود ہے۔
ٹھیتان کاپر کمپنی کی ایک رپورٹ کے مطابق ریکوڈک کا ’اقتصادی طور پر قابلِ کان کن حصہ‘ 2.2 ارب ٹن جبکہ ایک دوسری رپورٹ کے مطابق چار ارب ٹن سے زائد ہے، جس میں اوسطاً تانبا 0.53 فیصد ہے جبکہ سونے کی مقدار 0.3 گرام فی ٹن ہے۔ اس منصوبے کی کل عمر کا تخمینہ 56 سال لگایا گیا ہے۔
کمپنی نے ان قیمتی دھاتوں کے ذخائر کی کل مالیت کا تخمینہ ایک سو ارب ڈالر لگایا تھا تاہم کیس سے جڑے بعض سابق پاکستانی  حکام کا کہنا ہے کہ کمپنی نے ذخائر کا تخمینہ کئی گنا کم ظاہر کیا ۔ ریکوڈک کیس میں بلوچستان حکومت کے سابق وکیل امان اللہ کنرانی کا کہنا ہے کہ جیالوجیکل سروے آف پاکستان اور پاکستانی جوہری سائنس دان ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے سپریم کورٹ کو بتایا تھا کہ ریکوڈک میں 600 کلومیٹر رقبے پر پھیلے ذخائر کی مالیت ایک ہزار ارب ڈالر سے زائد ہے۔

شیئر: