وزیراعظم شہباز شریف سیلاب متاثرین سے ملنے کے سلسلے میں قلعہ سیف اللہ پہنچے تو کئی متاثرین نے کھانے پینے، رہائش اور دیگر سہولیات کی کمی سے متعلق شکایت کی لیکن ایک 12 سالہ طالب علم نے تعلیمی سہولیات کے فقدان اور سرکاری سکولوں میں اساتذہ کی غیر حاضری کا شکوہ کرتے ہوئے اعلیٰ تعلیم کی خواہش کا اظہار کیا۔
وزیراعظم نے وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو کو بچے کو اس کی خواہش کے مطابق بلوچستان، پنجاب یا پھر خیبر پختونخوا کے اچھے تعلیمی ادارے میں مفت تعلیم فراہم کرنے کی ہدایت کی۔
اردو نیوز کی جانب سے اکرام اللہ نامی اس بچے کو تلاش کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ قلعہ سیف اللہ کے علاقے خسنوب کا رہائشی ہے جو جولائی کے پہلے ہفتے میں آنے والے سیلاب سے بری طرح متاثر ہوا تھا اور اسی علاقے کے 20 ہزار سے زائد افراد بے گھر ہوئے تھے۔
مزید پڑھیں
-
لاش آنکھوں کے سامنے ہے لیکن یقین نہیں آرہا کہ فہد اب نہیں رہا‘Node ID: 689436
آٹھویں جماعت کے طالب علم اکرام اللہ کا گھر بھی اس سیلاب میں تباہ ہوگیا تھا اور وہ بے گھر ہو کر کیمپ منتقل ہو گئے مگر وہاں سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے قلعہ سیف اللہ بازار میں مکان کرائے پر لے کر اس میں رہائش اختیار کر لی۔
اکرام اللہ نے بتایا کہ ان کا علاقہ پہلے ہی پسماندہ اور بہت سے مسائل کا شکار ہے لیکن سیلاب نے ان کا سب کچھ چھین لیا۔
’ہمارا گھر تباہ ہوگیا، بیس پچیس بھیڑ بکریاں تھیں وہ بھی سیلاب بہا کر لے گیا۔ والد اور چچا کی زرعی زمین کو نقصان پہنچا مگر میں نے وزیراعظم سے ان مسائل کی شکایت نہیں کی کیونکہ ہمیں خیمے اور راشن نہیں تعلیم چاہیے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ مشکل وقت ہے ہم گزار لیں گے۔ کھانا پینا بھی کہیں سے کر لیں گے مگر ہماری پسماندگی کی اصل وجہ تعلیم کا نہ ہونا ہے۔ پہلے تو ہمارے علاقے میں سرکاری سکول ہی نہیں ہیں اگر ہیں تو وہاں اساتذہ ڈیوٹی نہیں دیتے۔ بچے اپنی مرضی سے آتے اور اپنی مرضی سے جاتے ہیں۔ بہت سے بچے تو سکول بھی نہیں جانتے۔‘
اکرام اللہ نے کہا کہ ہمارے مسائل کا حل تعلیم ہے اس لیے میں نے وزیراعظم سے صرف تعلیم کے بارے میں ہی شکایت کی اور سہولیات فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔
اکرام اللہ کو تعلیم کی اہمیت سے ان کے والد نور محمد نے ہی آگاہ کیا ہے جو ماسٹر ڈگری ہولڈر ہیں مگر محکمہ صحت بلوچستان میں پانچویں سکیل کی معمولی نوکری کرنے پر مجبور رہے۔

والد نور محمد نے بتایا کہ اکرام اللہ شروع سے ہی انتہائی ذہین اور قابل ہیں اور پڑھنے کا بہت شوق ہے۔
’ہمارے علاقے خسنوب کی بیس پچیس ہزار آبادی ہونے کے باوجود کوئی سرکاری سکول نہیں۔ نزدیک ترین سکول بھی دس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اس لیے اکرام کو ایک دو سال سرکاری سکول میں پڑھانے کے بعد قلعہ سیف اللہ کے ایک نجی سکول میں داخل کرایا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ان کے پاس سکول کی فیس بھی نہیں تھی مگر اکرام کی قابلیت کو دیکھتے ہوئے نجی سکول کے سربراہ نے فیس معاف کردی۔
’ہمارا اپنا گھر نہیں، میں نے ایک کمرہ کرایہ پر لے رکھا تھا۔ اکرام کبھی میرے ساتھ تو کبھی میرے چچا کے گھر رہتا۔‘
نور محمد نے بتایا کہ ان کی سرکاری تنخواہ بہت کم ہے جس میں وہ اپنے پورے خاندان کی کفالت کر ہے ہیں۔
’تھوڑی بہت آمدن زمینداری سے ہوجاتی تھی مگر سیلاب میں گھر، مال مویشی اور زرعی زمین تباہ ہونے کے بعد زندگی اور مشکل ہوگئی ہے۔‘
نور محمد نے کہا کہ ’ضلع میں محکمہ تعلیم کے افسران کے بچے خود نجی سکولوں میں پڑھ رہے ہیں۔ سرکاری سکولوں کی حالت اور معیار اچھا نہیں۔ ہم خواہش کے باوجود بچوں کو اچھے سکول میں نہیں پڑھا سکتے۔ میرے باقی بچے سرکاری سکول میں پڑھتے ہیں۔‘
