بیجی سٹی ، چین ۔۔۔۔ چین کے شمالی علاقے کے گاؤں بیجی کے قصبے میں عرصہ دراز کے بعد لوگوں نے کچھ ایسی معمر خواتین کو دیکھا جنہوں نے اپنے پیر باندھ رکھے تھے اور یہ سب کچھ پرانی تہذیبی روایات کی پاسداری میں ان لوگوں نے کیا تھا۔ 10ویں صدی عیسوی میں شروع ہونے والا یہ سلسلہ بہت حد تک فیشن سے بھی تعلق رکھتا ہے اور سماجی تحفظات سے بھی۔ یہ ایک طرح سے اس بات کی علامت ہے کہ عورتیں اپنے گھر میں رہیں اور کہیں آمد ورفت نہ کریں۔ صدیوں پرانی اس روایت کی امین خواتین خود کو خوبصورتی کی علامت سمجھتی ہیں اور حسن کا مرقع گردانتی ہیں۔ یہ طریقہ دسویں صدی میں شروع ہوا تھا اور پھر 1911ء میں اس پر قانونی پابندی لگادی گئی تھی۔ تہذیب و تمدن کے مظاہر پر نظررکھنے والے ماہرین عمرانیات کا کہناہے کہ اب شاید ہی ایک دو گاؤں یا علاقے ایسے ہوں جہاں کی خواتین’’ پابستہ‘‘ رہنے کو ترجیح دیتی ہیں۔ پرانی کتابیں بتاتی ہیں کہ زمانہ قدیم میں جوان لڑکیوں میں یہ فیشن مقبول تھا اور یہ لڑکیاں اپنے علاقے میں سب سے حسین سمجھی جاتی تھیں۔اس حوالے سے جاری ہونے والی وڈیو اور تصاویر چند دنوں قبل کی ہیں۔ ماہرین تمدن کا کہناہے کہ جہاں یہ طریقہ اظہار حسن کی علامت تھا یہ ان خواتین کے سماجی رتبے کی بھی نشاندہی کرتا تھا یعنی عام عورتوں اور لڑکیوں کو اس طرح اپنے پیر باندھنے کی اجازت نہیں تھی۔تہذیبی طور پر لڑکیوں کے پاؤں اس وقت باندھے جاتے تھے جب ان کی عمر 4سے 9سال کے درمیان ہوتی تھی اور یہ پابستگی بالعموم سردی کے موسم میں بچیوں کے پاؤں محفوظ رکھنے کی غرض سے بھی اختیار کی جاتی تھی کیونکہ پیر باندھتے وقت بہت سارے کپڑے انکے پیروں پر باندھ دیئے جاتے تھے اور پیروں پر باندھنے سے قبل انہیں مختلف جڑی بوٹیوں کے پانی اور بعض جانوروں کے خون میں ڈبونے کے بعدپہلے سکھائی جاتی اور پھر انہیں پٹیوں کے طور پر استعمال کیا جاتا۔اس عمل کے نتیجے میں انکے پیر چھوٹے ہوجاتے تھے اور ناخن بڑھ نہیں پاتے تھے مگر تجربہ بتاتا ہے کہ اس طرح پٹیاں باندھنے کے نتیجے میں بہت سی لڑکیاں اور خواتین معذوری سے بھی دوچار ہوئیں یعنی انکے لئے چلنا پھرنا مشکل ہوگیا۔