پاکستان کے دفتر خارجہ نے ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران بتایا ہے کہ ’القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری پر حملے کے لیے پاکستان کی فضائی حدود استعمال ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔‘
جمعرات کو القاعدہ سربراہ کے حوالے سے امریکہ کے ساتھ انٹیلی جنس معلومات کے تبادلے کے حوالے سے سوال پر ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ ’میں آپ کی توجہ اس بیان کی طرف دلاؤں گا جو ہم نے اس واقعے پر جاری کیا ہے، اور وہی ہمارا باضابطہ موقف ہے۔‘
واضح رہے ایمن الظواہری کی ہلاکت پر پاکستان کے دفتر خارجہ نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ’پاکستان بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق دہشت گردی کا مقابلہ کرنے والوں کے ساتھ کھڑا ہے۔‘
مزید پڑھیں
-
ایمن الظواہری امریکی ڈرون حملے میں ہلاک، سعودی عرب کا خیرمقدمNode ID: 689601
-
ایمن الظواہری کی موت: امریکہ نے اپنے شہریوں کو انتباہ جاری کردیاNode ID: 689971
ترجمان دفتر خارجہ نے القاعدہ کے خلاف اقوام متحدہ کی قراردادوں کے حوالے سے کہا کہ ہم دہشت گردی کے خلاف اقوام متحدہ کی مختلف قراردادوں کا حوالہ دے رہے ہیں، اور ان میں انسداد دہشت گردی کے مختلف پہلوؤں کو شامل کیا گیا ہے۔ ان قراردادوں کے تحت مختلف بین الاقوامی ذمہ داریاں ہیں۔
’القاعدہ واضح طور پر ایک دہشت گرد تنظیم ہے، جس پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے پابندیاں عائد کی ہوئی ہیں اور ریاستیں ایسے اقدامات کرنے کی پابند ہیں جو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے تجویز کیے ہیں۔‘
ترجمان دفتر خارجہ کا اس حوالے سے مزید کہا کہ ’جیسا کہ آپ جانتے ہیں پاکستان نے ماضی میں پرعزم اقدامات کیے ہیں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عالمی برادری کی کوششوں کی حمایت کی ہے اور خاص طور پر القاعدہ کے خلاف کچھ قابل ذکر کامیابیاں پاکستان کے کردار اور شراکت کی وجہ سے ممکن ہوئیں۔‘
امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم کے حال ہی میں پاک-افغان سرحد کے دورے کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ ’میرے پاس اس حوالے سے کوئی خاص معلومات نہیں ہیں۔ میں چیک کر کے دوبارہ بتا سکتا ہوں۔‘
’طالبان امریکی دعوے کی تحقیقات کر رہے ہیں‘
دو روز قبل امریکی صدر جو بائیڈن نے اعلان کیا تھا کہ القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کابل میں ہونے والے امریکی ڈرون حملے میں ہلاک ہو گئے ہیں۔
امریکی صدر نے اپنے خطاب میں اس آپریشن کو ’انصاف‘ کی فراہمی کے طور پر سراہا تھا اور امید ظاہر کی تھی کہ یہ اقدام 11 ستمبر 2001 کو امریکہ پر ہونے والے حملوں میں ہلاک ہونے والے کے خاندانوں کے ’دکھوں کا مداوا‘ کرے گا۔
صدر جو بائیڈن نے وائٹ ہاؤس سے اپنے خطاب میں بتایا تھا کہ ’امریکی انٹیلی جنس حکام نے کابل کے ایک گھر میں ایمن الظواہری کا سراغ لگایا جہاں وہ اپنے خاندان کے ساتھ چھپے ہوئے تھے۔‘
دوسری جانب برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز نے طالبان کے ایک عہدے دار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان امریکہ کے اس ’دعوے‘ کی تحقیقات کر رہے ہیں کہ القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری کابل میں امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے تھے۔
طالبان عہدے دار کے مطابق ’ان کے گروہ کے اعلٰی رہنما ایمن الظواہری کی موجودگی سے واقف نہیں تھے۔‘
