کانسٹیٹیوشن کا ترجمہ ’دستور‘ کے علاوہ ’آئین‘ بھی کیا جاتا ہے۔ (فوٹو: پکس ہیئر)
مکتبِ عشق کا دستور نرالا دیکھا
اس کو چھٹی نہ ملے جس کو سبق یاد رہے
میر طاہر علی رضوی کے اس معروف شعر کا مصرع ثانی بالفاظ دیگر ’اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا‘ بھی رائج ہے۔ تصرف کے باب میں نہ تو یہ شعر منفرد ہے اور نہ ہی تبدیلی کی یہ روایت فقط شعر و شاعری تک محدود ہے۔
ہر زبان میں ایسے الفاظ موجود ہیں جو اپنی اصل سے قدرے مختلف صورت میں رائج ہیں۔ اس بات کو لفظ ’ہیولیٰ‘ سے سمجھا جا سکتا ہے، جو اصل میں ’ہیئتِ اولیٰ‘ ہے، مگر ادغام و تخفیف نے اس ’ہیولیٰ‘ کا ’حُلیہ‘ بگاڑ دیا ہے۔ دلچسپ بات یہ کہ خود ’حُلیہ‘ عربی میں ’ح‘ کی زیر کے ساتھ ’حِلیہ‘ ہے۔
الفاظ میں صوتی یا صوری تبدیلی نسبتاً ’دخیل الفاظ‘ یعنی ایک زبان سے دوسری زبان میں داخل ہونے والے الفاظ میں نمایاں ہوتی ہے۔ مثلاً ’دَستُور‘ عربی و اردو میں استعمال ہونے والا عام لفظ ہے۔ اس کے معنی رسم و رواج، طور طریقہ اور قاعدہ و قانون وغیرہ کے ہیں۔
قاعدہ و قانون کی نسبت سے کسی ملک، ادارے یا تنظیم کا ’ضابطہِ عمل‘ ’دَستُور‘ کہلاتا ہے۔ پھر عربی کی رعایت سے اردو میں دستور سے متعلق کئی ایک تراکیب بھی راہ پا گئی ہیں، مثلاً دَستُورالعمل، دَستُورِمملکت یا دَستُورِ اساسی وغیرہ۔
’دَستُور‘ اصلاً فارسی زبان کا لفظ ہے مگر اس کا تلفظ اور لفظی معنی قدرے مختلف ہیں۔ یہ دو لفظوں ’دَست‘ اور ’وَر‘ سے مرکب ہے، اس میں ’دَست‘ کے معنی مسند اور قوت کے ہیں جب کہ ’ور‘ کے معنی صاحب، جناب اور والا کے ہیں۔ یوں دیدہ وَر، سَروَر اور تاج وَر کے وزن پر لفظ ’دَست وَر‘ ہے۔
تاہم عربی میں پہنچ کر اس کا تلفظ مَستُور اور مَجبُور کے وزن پر ’دَستُور‘ ہوگیا ہے جب کہ عربی قاعدے کے مطابق اس دَستُور سے جمع ’دساتیر‘ بھی بنا لی گئی۔ اب اس ’دساتیر‘ کو جون پور کے اخلاق بندوی کا ہاں ملاحظہ کریں، جن کا کہنا ہے:
کچھ مزہ آیا ہے جینے کا ہمیں بھی اخلاق
جب گزر گاہِ دساتیر سے باہر نکلے
جہاں تک ’دَست وَر/ دَستوَر‘ کے لفظی معنی کی بات ہے تو فارسی فرہنگ نویسوں نے ’دَستوَر‘ کے معنی ’صاحبِ مسند، صدر اور امیر و وزیر‘ بیان کیے ہیں جب کہ اصطلاحی معنی فرمان اور قاعدہ و قانون کے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ امیر و وزیر کے احکام ہی ہوں گے جو اس کی نسبت سے خود بھی ’دَستوَر‘ کہلائے اور قاعدہ و قانون کے معنی اختیار کر گئے۔
اردو میں انگریزی کانسٹیٹیوشن (Constitution) کا ترجمہ ’دستور‘ کے علاوہ ’آئین‘ بھی کیا جاتا ہے۔ ’آئین‘ بھی فارسی لفظ ہے جو ’آئینہ‘ سے نسبت رکھتا ہے۔ جس طرح آئینے میں دیکھ کر انسان سجتا سنورتا ہے، ایسے ہی ’آئین‘ بھی کسی قوم یا ادارے کی لیے آئینے کا کام دیتا ہے، جس کے مطابق وہ ملک یا ادارہ درست سمت میں آگے بڑھتا ہے۔ آئینے کی نسبت سے عرفان صدیقی کا خوب کہہ گئے ہیں:
ہم سب آئینہ در آئینہ در آئینہ ہیں
کیا خبر کون کہاں کس کی طرف دیکھتا ہے
جس طرح فارسی کا ’دَستوَر‘ زبانِ غیر میں ’دَستُور‘ ہوگیا ہے، ایسا ہی معاملہ ’مُزدوَر‘ کا بھی ہے، جو اپنی اصل کے برخلاف اردو میں ’مُزدُور‘ ہے، جب کہ اس کا عوامی تلفظ ’میم‘ کے زبر کے ساتھ ’مَزدُور‘ رائج ہے۔
اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ’مُزدوَر‘ بھی ایک مرکب لفظ ہے جو’مُزد‘ یعنی اجرت اور ’وَر‘ سے مل کر بنا ہے۔ جب کہ اس کے معنی ’اُجرت پر کام کرنے والا‘ کے ہیں۔
صاحبِ مسند اور مزدور کے ذکر کے بعد اب کچھ احوال بچوں کا ہوجائے کہ گلشنِ حیات میں ان کا وجود پھولوں جیسا ہے۔
بچہ فارسی لفظ ہے، جس کی جمع بچگان ہے اور اسی سے لفظ بچگانہ بھی ہے جس کے معنی ’بچوں کے لائق یا بچوں کی طرح کا‘ ہیں۔ یہ ’بچگانہ‘ اردو میں غلط طور پر بصورتِ ’بچکانہ‘ رائج ہے۔
اردو میں ’بچہ‘ سے اس کی تانیث ’بچی‘ بنالی گئی ہے تاہم فارسی میں ’بچی‘ کے لیے ’دُخترہ، دُخترچہ، دُخترک اوردُخترِکوچک‘ کی سی تراکیب رائج ہیں۔
فارسی ہی میں بچے کو ’کودک‘ بھی کہتے ہیں، اس کی جمع کودکان ہے۔ ’کودک‘ سے ترکیب ’کودکستان‘ بھی ہے یعنی وہ جگہ جہاں تین سے چھ سال کی عمر کے بچوں کی تعلیم و تربیت کی جائے۔
بالفاظ دیگر ’کودکستان‘ انگریزی ’کنڈرگارڈن / کے جی‘ کا مترادف ہے۔
عربی میں بچہ ’طِفل‘ کہلاتا ہے، جس کی جمع ’اَطفال‘ ہے، فارسی نے یہ دونوں لفظ اپنا لیے ہیں، پھر فارسی قاعدے کے مطابق ’طِفل‘ سے ’طفلک‘ کا لفظ وضع کیا ہے، جس کے معنی ’چھوٹا بچہ‘ کے ہیں۔
ایسے ہی ’اِطفال‘ سے ترکیب ’بازیچہِ اطفال‘ بنائی ہے، جس کے معنی ’بچوں کے کھیل کا میدان‘ ہے۔ اس ترکیب کو غالب کے مشہور زمانہ شعر میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔