پاکستان کے شہر فیصل آباد میں مبینہ طور پر ایک رکشہ ڈرائیور کو جھگڑے کے دوران آگ لگا کر قتل کیا گیا ہے۔
تھانہ سٹی میں درج ایف آئی آر کے مطابق رکشہ ڈرائیور عبدالجبار جب سلینڈر میں ایل پی جی بھروانے کے لیے ایک دکان پر رکے تو وہاں ان کی تکرار ہوئی جس کے نتیجے میں دکانداروں نے انہیں آگ لگا دی۔ عبدالجبار کو زخمی حالت میں ہسپتال پہنچایا گیا لیکن وہ راستے میں ہی دم توڑ گئے۔
اس واقعے کا نوٹس وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی نے بھی لیا جس کے بعد اس کیس کی تحقیقات کے لیے پولیس متحرک ہے۔
مزید پڑھیں
-
سری لنکن شہری کا قتل ٹوئٹر پر ٹاپ ٹرینڈ، قتل کی شدید مذمتNode ID: 623961
فیصل آباد کے پولیس چیف عمر سعید ملک نے اردو نیوز کو بتایا کہ مقدمہ مقتول کے والد کی مدعیت میں درج ہوا ہے اور ان کا یہی ماننا ہے کہ جبار کو آگ لگا کر ہلاک کیا گیا ہے۔
پولیس چیف عمر سعید نے بتایا کہ کیس کی تفتیش ایف آئی آر میں درج حقائق کے مطابق کر رہے ہیں۔
ایف آئی آر کے مطابق یہ واقعہ 19 اگست کی رات 11 بجے کے قریب پیش آیا جب مقتول جبار اپنے بیٹے امن کے ساتھ واپس گھر آرہے تھے۔ انہوں نے جب رکشہ میں گیس بھروائی تو اس وقت جھگڑا ہو گیا۔
مقتول کے بیٹے امن کے مطابق ان کے والد کے چہرے پر پیٹرول چھڑک کر آگ لگائی گئی۔
مقامی میڈیا کو دیے گئے اپنے بیان میں امن نے کہا ’میرے سامنے میرے والد کو آگ لگائی گئی۔ جس کے بعد بازار میں بھگدڑ مچ گئی اور کچھ لوگوں نے مل کر پانی پھینک کر آگ بجھائی۔‘

امن نے مزید بتایا کہ بازار میں موجود ایک شخص نے ان کا ساتھ دیا اور وہ اپنے والد کو لے کر ہسپتال پہنچے۔
’جب ہم رکشے میں والد کو لے کر جا رہے تھے تو ایک دفعہ پھر ہمیں روکنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن جب ہم ہسپتال پہنچے تو تب تک میرے والد انتقال کر چکے تھے۔‘
’120 روپے کا جھگڑا تھا‘
اس واقعے کے عینی شاہدین کے بیان میں خاصا تضاد دکھائی دیتا ہے تاہم ایک بات مشترک ہے کہ یہ جھگڑا کل 120 روپے کا تھا۔
واقعے کے ایک عینی شاہد محمد رضوان کے مطابق ’عبدالجبار پہلے بھی اس دکان سے ایل پی جی بھروانے آتے تھے لیکن اس بار اچانک پیسوں کا تنازع شروع ہو گیا۔ دکاندار ان سے مزید 120 روپے مانگ رہا تھا اور وہ نہ دینے پر بضد تھے۔ اسی دوارن بات گالی گلوچ تک پہنچ گئی اور اردگرد کے لوگوں نے بیچ بچاؤ کروا کے معاملہ رفع دفع کروا دیا۔‘
ایک اور عینی شاہد کاشف علی کے مطابق ’ایک دفعہ جھگڑا ختم ہوا تو اس کے بعد جبار اپنا رکشہ لے کر وہاں سے چلے گئے۔ کوئی لگ بھگ 45 سے 50 منٹ کے بعد وہ دوبارہ آئے لیکن کسی نے نوٹس نہیں کیا۔ ایک مرتبہ پھر شور اٹھا جب دیکھا تو ایک شخص کو آگ لگی ہوئی تھی اور کچھ لوگ بجھانے کی کوشش کر رہے تھے جبکہ ریسیکو کو بھی فون کیا جا رہا تھا۔ لوگ اپنے طور پر بھی کوشش کر رہے تھے لیکن وہ شدید زخمی ہو چکے تھے۔‘
