Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی خواتین کا اقتصادی و سماجی ترقی کے شعبوں میں کردار

بااختیار خواتین خاندان کو معاشرے میں مزید مستحکم کرنے کے قابل ہو جائیں گی۔ فوٹو عرب نیوز
ڈاکٹر ابرار عبدالمنان بار سلام پروجیکٹ برائے ثقافتی مواصلات میں نالج ڈیپارٹمنٹ کی سربراہ نے کہا ہے کہ سعودی خواتین نے مملکت میں اقتصادی اور سماجی ترقی کے شعبوں میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق ڈاکٹر ابرار سعودی خواتین کو قیادت کے عہدوں پر فائز ہونے کے لیے درکار مہارت فراہم کر کے انہیں بااختیار بنانے میں ماہر ہیں۔

خواتین کے لیے پیشہ ورانہ تعاون کا کلچر ہونا چاہئے چیلنجز معمول ہے۔ فوٹو عرب نیوز

سلام پروجیکٹ کی سربراہ ان دنوں جاپان کی ٹوکائی یونیورسٹی میں وزٹنگ جونیئر اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر بھی کام  کر رہی ہیں۔
ڈاکٹر بار کا کہنا ہے کہ  خواتین کو بااختیار بنانا  بین الاقوامی طور پر انتہائی اہم  اور دنیا بھر میں ترقیاتی منصوبوں کے لازمی حصہ سمجھا جا رہا ہے۔
اقتصادی تعاون اور ترقی کی تنظیم کے رکن ممالک میں خواتین کو بااختیار بنانا ان ممالک کی مجموعی ملکی پیداوار کو چھ  ٹریلین ڈالر تک بڑھا سکتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ 2016 میں سعودی وژن کے اعلان کے بعد صرف پانچ برسو ں میں دولاکھ 93 ہزار سے زیادہ خواتین لیبر مارکیٹ میں اپنی خدمات پیش کرنے کے لیے شامل ہوئی ہیں۔
اس کے بعد ہم سعودی خواتین کو سفیر، نائب وزراء اور دیگر اعلی عہدوں پر تعینات دیکھ رہے ہیں۔

خواتین میں بے روزگاری کی شرح کم ہو کر24.4 فیصد رہ گئی ہے۔ فوٹو ٹوئٹر

سعودی عرب کی جنرل اتھارٹی برائے شماریات کے مطابق خواتین کی معاشی شراکت داری 2016 میں 19.3 فیصد سے بڑھ کر2020 کے آخر تک 33.2 فیصد ہو گئی ہے۔
اس کے علاوہ خواتین میں بے روزگاری 2016 میں 34.5 فیصد سے کم ہو کر 2020 میں 24.4 فیصد رہ گئی۔
لیبر مارکیٹ میں خواتین کی شرکت 2020 اور 2021 کے درمیان 25.9 فیصد سے بڑھ کر 33.6 فیصد ہوگئی جو سعودی  وژن 2030 میں مقرر کردہ اہداف سے بھی  زیادہ ہے۔
ڈاکٹر ابرار  نے انکشاف کیا  ہے کہ سعودی خواتین کی اوسط سالانہ آمدنی 111.6 ارب ریال تک پہنچ گئی ہے اور سعودی خواتین کو بااختیار بنانے کے فوائد پورے معاشرے تک پھیلے ہوئے ہیں۔

خواتین کو بااختیار بنانا دنیا بھر میں لازمی سمجھا جا رہا ہے۔ فوٹو عرب نیوز

انہوں نے کہا کہ  خواتین جتنی زیادہ بااختیار ہوں گی، اتنی ہی زیادہ اچھے طریقے سے وہ اپنے بچوں کو تعلیم دینے اور اپنے خاندان اور برادری کو مزید مستحکم کرنے کے قابل ہو جائیں گی،خواتین کو صرف گھریلو دائرے تک محدود نہیں ہونا چاہئے۔
خواتین کے لیے  پیشہ ورانہ، انتظامی، ذاتی اور خاندانی کامیابیوں میں توازن کے لیے تعاون کا کلچر ہونا چاہئےاس کے لیے کچھ رکاوٹوں اور چیلنجوں کا سامنا کرنا معمول ہے۔
سعودی وزارت انسانی وسائل و سماجی ترقی کی جانب سے فرانسیسی بزنس سکول کے تعاون سے شروع کیے گئے اقدامات میں سے ایک سعودی خواتین کو قائدانہ صلاحیتوں سے آراستہ کرنا ہے جو انہیں  کام کے ماحول اور بین الاقوامی سطح پر مسابقتی برتری فراہم کرے۔
انہوں نے بتایا کہ خواتین کے لیے جاری پروگراموں میں سے ایک ینگ لیڈرشپ کوالیفیکیشن پروگرام برائے گلوبل کمیونیکیشن ہے جو سلام پروجیکٹ فار کلچرل کمیونیکیشن کے ذریعے بین مذہبی اور بین الثقافتی مکالمے کو فروغ دیتا ہے۔
 

شیئر: