Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

 افغانستان میں لڑکیوں کا سکولوں سے اخراج ’شرمناک‘ ہے: اقوام متحدہ

اقوام متحدہ نے افغان طالبان کی جانب سے لڑکیوں کو سکولوں سے باہر رکھنے کو شرمناک اقدام قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ساتویں سے بارہویں جماعت کی طالبات کے سکول دوبارہ کھولیں۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اقوام متحدہ نے اتوار کو اپنے بیان میں کہا کہ شہریوں کی بنیادی آزادیوں پر قدغنیں عائد کرنے کی پالیسی افغانستان کو بڑے پیمانے پر عدم تحفظ، غربت اور تنہائی کی جانب دھکیلے گی۔
اقوام متحدہ کے افغانستان میں مشن کے قائم مقام سربراہ مارکس پوٹزل افغانستان پر طالبان کی حکمرانی کا ایک برس مکمل ہونے پر کہا ہے کہ ’یہ افسوس ناک، شرمناک اور بہر صورت قابلِ گریز سالگرہ ہے۔
طالبان کی جانب سے ملک کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد سخت گیر نظریات رکھنے والے افراد کی حکومت پر گرفت مضبوط ہو رہی ہے۔ لڑکیاں کو ابھی تک سکولوں میں جانے کی اجازت نہیں جبکہ خواتین کے لیے لازم ہے کہ وہ سر پاؤں تک خود کو ڈھانپیں۔
طالبان نے ملک کا اقتدار سنبھالتے ہوئے لڑکیوں کو سکولوں میں جانے کی اجازت دینے سمیت جو وعدے کیے تھے وہ ابھی تک پورے نہیں کیے۔
افغانستان میں تاحال ساتویں سے بارہویں جماعت کی طالبات تعلیم سے محروم ہیں اور ان پابندیوں سے 12 سے 18 برس کی لڑکیاں متاثر ہو رہی ہیں۔

افغانستان میں تاحال ساتویں سے بارہویں جماعت کی طالبات تعلیم سے محروم ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

افغانستان کے نئے حکمرانوں نے لڑکوں کے ہائی سکول کھول دیے تھے تاہم لڑکیوں کو گھروں میں ہی رہنے کی ہدایت کی تھی۔
اقوام متحدہ کے اندازے کے مطابق گزشتہ برس لگ بھگ 10 لاکھ لڑکیوں کو سکولوں سے محروم رکھا گیا۔

موسمیاتی آفات سے سکول جانے والے بچے زیادہ متاثر ہوئے

دوسری جانب موسمیاتی آفات نے بھی پاکستان سے لے کر یوکرین، وینزویلا اور سب صحارا افریقہ کے وسیع علاقوں تک سکول جانے والے بچوں کو متاثر کیا ہے۔
اقوام متحدہ کے عالمی فنڈ ’ایجوکیشن کانٹ ویٹ‘ جو بحران زدہ علاقوں میں تعلیم پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے، کی سربراہ یاسمین شریف کا کہنا ہے کہ ’یہ خوفناک ہے، اور اس کا تصور کرنا مشکل ہے۔‘
اقوام متحدہ کے فنڈ کا تخمینہ ہے کہ دنیا بھر میں موسمیاتی آفات کی وجہ سے 22 کروڑ بچوں کو تعلیم کے حصول میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جن میں تقریباً آٹھ کروڑ ایسے بچے بھی شامل ہیں جنہوں نے کبھی سکول میں قدم نہیں رکھا۔
’ایجوکیشن کانٹ ویٹ‘ نے 2016 سے سکولوں کی تعمیر اور تعلیمی مواد خریدنے کے ساتھ ساتھ روزانہ کھانا فراہم کرنے کے لیے ایک ارب ڈالر سے زیادہ اکٹھا کیا ہے۔ اس فنڈ سے 32 ممالک میں تقریباً 70 لاکھ بچوں کی امداد ہوتی ہے۔‘
یاسمین شریف نے بتایا کہ ’کچھ مغربی ممالک بچے کی تعلیم پر سالانہ 10 ہزار ڈالر خرچ کرتے ہیں جبکہ بحران زدہ علاقوں میں ہر بچے کو 150 ڈالر ملتے ہیں، تو آپ اس فرق کا اندازہ کر سکتے ہیں۔‘

دنیا بھر میں موسمیاتی آفات کی وجہ سے 22 کروڑ بچوں کو تعلیم کے حصول میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ان کے بقول ’تنازعات کے شکار کچھ علاقوں میں سکولوں کو تباہ کر دیا گیا ہے جبکہ دیگر بین الاقوامی قانون کے برخلاف ہتھیاروں کے ڈپو میں تبدیل ہو گئے ہیں۔‘
یاسمین شریف نے کہا کہ تعلیم کی کمی کے حقیقی اور فوری نتائج ہوتے ہیں۔ ’بعض اوقات بچے سڑکوں پر آ جاتے ہیں جنہیں تشدد، انسانی سمگلنگ، مسلح گروہوں کی طرف سے بھرتی یا لڑکیوں کو جبری شادی کے خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘
’ایجوکیشن کانٹ ویٹ‘ کی سربراہ کا مزید کہنا تھا کہ ’انہوں نے اپنے گاؤں کو جلتے دیکھا ہے، اپنے والدین کو قتل ہوتے دیکھا ہے، انہیں تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے دیکھا ہے۔ ان کے لیے صرف ایک چیز رہ گئی ہے اور وہ یہ کہ اگر میں تعلیم حاصل کر سکتا ہوں، تو میں اس سے اپنی زندگی میں تبدیلی لا سکتا ہوں۔‘

 

شیئر: