Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلوچستان یونیورسٹی میں احتجاجی طلبہ پر پولیس کا لاٹھی چارج، متعدد گرفتار

 کوئٹہ میں جامعہ بلوچستان کے اندر احتجاج کرنے والے طلبہ پر پولیس نے لاٹھی چارج کیا اور دو درجن سے زائد طلبہ کو گرفتارکرلیا۔
طلبہ جامعہ میں داخلہ کے لیے ہونے والے ٹیسٹ کے طریقہ کار میں تبدیلی کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔
 یونیورسٹی پولیس کے ایس ایچ او محمد اکرام ترین کا کہنا ہے کہ ٹیسٹ روکنے کی کوشش کرنے والوں کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج کرنا پڑا اور ایف سی کو بھی طلب کیا گیا۔
احتجاج کے باعث بڑی تعداد میں طلبہ انٹری ٹیسٹ دینے سے محروم ہوگئے ۔
ایس ایچ او کے مطابق شام میں تین ہزار سے زائد طلبہ کا ٹیسٹ لیا جانا تھا مگر نصف سے زائد طلبہ یونیورسٹی پہنچے ہی نہیں۔
ساتھی طلبہ کی گرفتاری کے خلاف طلبہ نے یونیورسٹی کے سامنے سریاب روڈ پر اور منیر مینگل روڈ پر رکاوٹیں کھڑی کرکے دھرنا دے دیا۔
سڑک بند ہونے کے باعث گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ گئیں اور شہر میں ٹریفک کا نظام درہم برہم ہوگیا۔
بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن (پجار) کے چیئرمین زبیر بلوچ نے اردو نیوز کو بتایا کہ یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے ٹیسٹ کے طریقہ کار میں تبدیلی سے طلبہ متاثر ہورہے ہیں۔

احتجاج کے باعث بڑی تعداد میں طلبہ انٹری ٹیسٹ دینے سے محروم ہوگئے۔ (فوٹو: اردو نیوز)

پہلے ہر شعبے کا الگ الگ داخلہ ٹیسٹ لیا جاتا تھا لیکن اس بار ٹیسٹ سینٹرلائزڈ لیا جارہا ہے اور تمام شعبوں کے طلبہ سے اکٹھے اور ایک جیسا ٹیسٹ لیا جارہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ باٹنی کے طلبہ سے ریاضی کا امتحان لینا کیسے درست ہوسکتا ہے۔
’ہم چاہتے ہیں کہ جو طالبعلم جس شعبے میں داخلہ لینا چاہتا ہے اسی سے متعلق ٹیسٹ لیا جائے۔ اسی طرح کوٹہ سسٹم کی بنیاد پر ٹیسٹ لیے جائیں تاکہ ہر طالبعلم کا مقابلہ اس کے اپنے ضلع کے طلبہ سے ہوں۔‘
ان کے مطابق ایک مہنگے پرائیوٹ سکول کے طالبعلم سے ایک دور دراز اور پسماندہ علاقے کے سرکاری سکول سے پڑھنے والا طالبعلم کیسے مقابلہ کرسکتا ہے۔
زبیر بلوچ کا کہنا تھا کہ ٹیسٹ سے قبل بھی یونیورسٹی انتظامیہ سے بارہا اس مسئلے پر بات کی گئی مگر انہوں نے ہماری ایک نہیں سنی۔
آج جب ٹیسٹ شروع ہونے سے قبل طلبہ تنظیموں کے عہدے داروں نے احتجاج کیا تو یونیورسٹی کی انتظامیہ نے پولیس بلاکر طلبہ پر لاٹھی چارج کیا۔ ان کے کپڑے پھاڑے گئے اور تیس سے زائد طلبہ کو گرفتار کر لیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ پولیس کے تشدد سے متعدد طلبہ بھی زخمی ہوگئے ہیں۔
چیئرمین بی ایس او کا کہنا تھا کہ گرفتار ہونے والوں میں بیشتر بلوچ اور پشتون سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے عہدے دار ہیں تاہم پولیس کا کہنا ہے کہ گرفتار طلبہ کو واپس رہا کردیا گیا ہے۔

حکومت بلوچستان کی ترجمان فرح عظیم شاہ نے احتجاجی طلبہ سے مذاکرات کیے تاہم بات چیت کامیاب نہیں ہوسکی- (فوٹو: اردو نیوز)

احتجاج کے باعث ٹیسٹ سے محروم رہ جانے والے ایک طالبعلم حافظ محمد احمد خان نے بتایا کہ وہ انٹری ٹیسٹ دینے کے لیے یونیورسٹی پہنچے تھے لیکن یہاں احتجاج کے باعث انتظامیہ نے گیٹ بند کر دیے اور کسی کو اندر یا باہر جانے نہیں دے رہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ مائیکرو بائیولوجی اور ذولوجی دو شعبوں کے امیدوار تھے۔ پہلے ان کے ٹیسٹ الگ الگ لیے جاتے تھے اب ایک ہی ٹیسٹ لیا جارہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کچھ طلبہ نے ایک ہی وقت میں تین مختلف شعبوں میں داخلہ کی درخواست جمع کرائی ہیں ان سے بھی ایک ساتھ ساتھ ٹیسٹ لیا جارہا ہے۔
حافظ احمد کے مطابق اگر طالبعلم کسی ایک بھی شعبے کے ٹیسٹ میں ناکام ہوگیا تو وہ کسی دوسرے شعبے میں بھی داخلہ نہیں لے سکتا اس طرح طلبہ کا پورا سال ضائع ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔
حکومت بلوچستان کی ترجمان فرح عظیم شاہ نے احتجاجی طلبہ سے مذاکرات کیے تاہم بات چیت کامیاب نہیں ہوسکی-
فرح عظیم شاہ کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی انتظامیہ کا موقف ہے کہ ٹیسٹ میں کوئی پیچیدگی نہیں، میرٹ کو یقینی بنانے کے لیے طریقہ کار تبدیل کیا گیا -
ان کا کہنا تھا کہ طلبہ کے تحفظات دور کرکے مسئلہ جلد حل کرلیا جائے گا-

شیئر: