جمعے کے روز سابق وزیراعظم عمران خان دفعہ 144 کے مقدمے میں ضمانت ملنے کے بعد ایڈیشنل سیشن جج زیبا چوہدری کی عدالت میں رضا کارانہ طور پر گئے تاہم جج چھٹی کے باعث عدالت میں موجود نہ تھیں۔
عمران خان نے ایڈیشنل سیشن جج کے ریڈر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘میڈم زیبا کو بتانا عمران خان آئے تھے، معافی مانگنے۔‘
عمران خان کی جانب سے بیان حلفی میں غیر مشروط معافی نہیں مانگی گئی تاہم ان کے بیان حلفی میں وہ تمام باتیں شامل ہیں جو انہوں نے گزشتہ سماعت کے دوران عدالت کے سامنے کی تھیں۔
عمران خان کی جانب سے جمع کرائے گئے بیان حلفی میں کہا گیا ہے کہ ’دوران سماعت احساس ہوا 20 اگست کو تقریر میں شاید ریڈ لائن کراس کی، اگر جج کو یہ تاثر ملا کہ ریڈ لائن کراس ہوئی تو معافی مانگنے کو تیار ہوں۔‘
متن کے مطابق ’تقریر میں جج کو دھمکی دینے کا ارادہ نہیں تھا، ایکشن لینے سے مراد لیگل ایکشن کے سوا کچھ نہیں تھا، 26 سال عدلیہ کی آزادی اور قانون کی حکمرانی کے لیے جدوجہد کی۔‘
عمران خان نے اپنے بیان حلفی میں عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ وہ مستقبل میں ’ایسا کوئی اقدام نہیں کریں گے جس سے عدالیہ خصوصا لوئر جوڈیشری کے تقدم پر حرف آئے۔‘
انہوں نے کہا کہ وہ عدلیہ کی آزادی پر یقین رکھتے ہیں اور عدالت کو مطمئن کرنے کے لیے وہ سب کرنے کو تیار ہیں جو یہ عدالت مناسب سمجھتی ہے۔
عمران خان کی جانب سے روسٹرم پر آکر جج زیبا چوہدری سے معافی مانگنے کی پیشکش پر عدالت نے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے توہین عدالت کیس میں فرد جرم عائد کرنے کی کارروائی موخر کر دی تھی۔