ایران میں جاری مظاہروں پر سابق افغان حکومت کے عہدیدار کا تبصرہ
ایران میں جاری مظاہروں پر سابق افغان حکومت کے عہدیدار کا تبصرہ
پیر 10 اکتوبر 2022 16:06
طالبان کی پابندیوں نے خواتین کے حقوق اور ملک کی ادارہ جاتی ترقی کے حوالے سے دو دہائیوں کی پیش رفت کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
2018 سے 2021 تک افغانستان کی قومی سلامتی کے مشیر رہنے والے ڈاکٹر حمد اللہ محب نے کہا ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ طالبان کے انداز حکومت سے افغان عوام میں بے چینی بڑھتی جا رہی ہے۔
عرب نیوز کے پروگرام فرینکلی سپیکنگ کی میزبان کیٹی جیسن کو انٹرویو میں افغانستان کی معزول حکومت کے قومی سلامتی کے مشیر ڈاکٹر حمد اللہ محب نے کہا کہ افغانستان سے امریکی فوج کے اچانک انخلا کے بعد طالبان کو اقتدار میں واپس آئے ایک سال سے زائد عرصہ مکمل ہونے پر حکومتی پالیسیوں کے خلاف عوام کی مایوسی بڑھ رہی ہے۔
قومی سلامتی کے سابق مشیر حمد اللہ محب کا یہ تبصرہ ہمسایہ ملک ایران میں بڑے پیمانے پر ہونے والے مظاہروں کے پس منظر میں سامنے آیا ہے۔
واضح رہے کہ ایران میں پولیس حراست میں 22 سالہ کرد خاتون مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد خواتین اور نسلی اقلیتوں پر ظلم کے خلاف عوامی سطح پر مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔
حمد اللہ محب نے جو سابق افغان صدر اشرف غنی کے ڈپٹی چیف آف سٹاف بھی رہ چکے ہیں، اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’یہاں (افغانستان) خطرہ ایران سے کہیں زیادہ ہے۔‘
حمد اللہ محب جو 2014 سے 2018 تک امریکہ میں افغانستان کے سفیر بھی رہ چکے ہیں، نے مزید کہا ہے کہ افغان عوام ملک میں بہت سی تبدیلیاں دیکھ چکے ہیں اور جانتے ہیں کہ یہ ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ ’مجھے اس بات کی توقع نہیں کہ ایران میں ہونے والے مظاہروں کا افغانستان میں ہونے والے واقعات پر براہ راست اثر پڑے گا۔‘
ان کا خیال ہے کہ کابل اور دیگر افغان شہروں کی سڑکوں پر اسی طرح کی نظر آنے والی خلاف ورزی کے مناظر وقتی بات ہے۔
’یقینی طور پر ان حالات کا کچھ اثر تو پڑے گا لیکن مجھے نہیں لگتا کہ یہ وہ وقت ہے جب افغانستان میں بڑے پیمانے پر متحرک ہونے کے لیے کوئی امید ہے تاہم اگر یہی صورتحال جاری رہی تو افغان عوام متحرک ہو جائے گے۔‘
واضح رہے کہ طالبان سے معاہدے کے بعد امریکہ کی اگست2021 میں افغانستان سے پسپائی کے بعد ملک بین الاقوامی طور پر تنہائی اور معاشی بحران کی صورتحال سے دوچار ہے۔
اقتدار میں واپسی پر طالبان حکومت نے کچھ ایسی پابندیاں دوبارہ عائد کی ہیں جس سے خواتین کے حقوق اور ملک کی ادارہ جاتی ترقی کے حوالے سے دو دہائیوں کی پیش رفت کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔