Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بیان پر قائم ہوں، جمہوریت شریف خاندان سے جڑی ہوئی نہیں: اعتزاز احسن

اعتزاز احسن نے مریم نواز کے بری ہونے پر تنقید کی تھی۔ فوٹو: اے ایف پی
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اعتزاز احسن آج کل پھر خبروں کی زینت بنے ہوئے ہیں اور اس کی وجہ ان کا حال ہی میں دیا جانے والا بیان ہے جس میں انہوں نے مریم نواز کے بری ہونے پر سسٹم کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ 
اپنے بیان میں انہوں نے کہا تھا کہ مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز کو بری کرنے کا فیصلہ ایک مزاق ہے۔
منگل کے روز لاہور ہائی کورٹ میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے اعتزاز احسن نے کہا تھا کہ نواز شریف، شہباز شریف اور مریم کے مقدمے تو آپ کی میری ہاتھ کی تلی پر لکھے ہوئے ہیں۔‘
 ان کے اس بیان کو سوشل میڈیا پر بہت پذیرائی ملی، خاص طور پر تحریک انصاف کے کارکنوں نے اس بیان کو بہت زیادہ شیئر کیا۔
دوسری جانب پیپلز پارٹی چوہدری اعتزاز احسن کے بیان سے نالاں نظر آتی ہے۔ پارٹی کی جانب سے ان کے اس بیان کو جمہوریت کے لیے خطرہ بھی قرار دیا ہے۔ 
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے چوہدری اعتزاز احسن نے کہا کہ ’جہاں تک سیاست کا تعلق ہے میں پیپلز پارٹی سے ہوں پیپلز پارٹی میں ہی رہوں گا۔ جب پارٹی مجھے سے جواب مانگے گی تو جواب دے دوں گا۔ میں اپنے بیان پر قائم ہوں اور یہ میرے دل کی آواز ہے۔ جمہوریت شریف خاندان سے جڑی ہوئی نہیں ہے۔‘
پیپلز پارٹی نے اعتزاز احسن کے بیان پر سخت رد عمل دیا ہے۔ پارٹی کے وسطی پنجاب کے قائم مقام صدر رانا فاروق سعید نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہ ’اعتزاز احسن پاکستان میں جمہوریت ختم کرنے کے لیے عمران خان کے سازشی ٹولے کا مکمل حصہ بن چکے ہیں۔ اعتزاز احسن ایک عرصے سے عمران خان کی فتنہ اور فراڈ سیاست کا دفاع کر رہے ہیں اور ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی  کی قیادت اور پالیسیوں کی مسلسل مخالفت کر رہے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’اعتزاز احسن نے اُس وقت بھی عمران خان کی پولیٹکل انجینئرنگ کی خاموش حمایت کی تھی جب عمران خان نے نیب کے ذریعے صدر آصف علی زرداری اور محترمہ فریال تالپور کو گرفتار کروایا اور چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے خلاف جھوٹے مقدمے بنائے۔ اس وقت ان کی زبان پر تالے لگ گئے تھے۔‘

پیپلز پارٹی نے اعتزاز احسن کے بیان کو جمہوریت کے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

پیپلز پارٹی کا رد عمل اپنی جگہ لیکن چوہدری اعتزاز احسن کا شمار ان چند چوٹی کے راہنماؤں میں ہوتا ہے جو بیک وقت وکیل، سیاستدان، ادیب اور شاعر بھی ہیں۔
انہوں نے شروع سے ہی پیپلزپارٹی کی سیاست کی اور پارٹی ان پر یہ الزام عائد کرتی ہے کہ ’1977 میں جب ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تحریک چلی اور پیپلز پارٹی مشکل میں آئی تو اعتزاز احسن پیپلز پارٹی چھوڑ کر اصغر خان کی تحریک استقلال میں چلے گئے اور پارٹی کے خلاف کئی برس کام کیا۔‘
پیپلز پارٹی اور چوہدری اعتزاز کے درمیان دوسری مرتبہ دوری 2007 میں اس وقت ہوئی جب وہ وکلا تحریک کے سرخیل تھے اور اس وقت کے معزول چیف جسٹس افتخار چوہدری کو بحال کروانے کی مہم میں پیش پیش تھے۔
انہوں نے نواز شریف کے ساتھ مل کر پیپلزپارٹی کی حکومت کے خلاف 2008 میں لانگ مارچ کیا اور نواز شریف کے وکیل کی حیثیت سے بھی عدالتوں میں پیش ہوتے رہے۔  
 اس دوران وہ پیپلز پارٹی سے دور ہو گئے لیکن بعد ازاں دوبارہ صلح ہوئی اور وہ اس وقت بھی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا حصہ ہیں۔ 
دلچسپ بات یہ ہے کہ چوہدری اعتزاز احسن کا گھر لاہور میں زمان پارک میں چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کے پڑوس میں واقع ہے۔ 
 سیاسی مبصرین کے مطابق اعتزاز احسن نے ہمیشہ اپنی مرضی کی سیاست کی ہے اور وہ ایسے سیاست دونوں میں شمار ہوتے ہیں جو پارٹی میں رہتے ہوئے الگ شناخت قائم رکھتے ہیں۔ اس طرح کی دوسری مثال جاوید ہاشمی ہیں۔ 

شیئر: