Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لورالائی: طلبہ کو یرغمال بنانے کا پراسرار واقعہ، مزاحمت پر چھ بہنوں کا اکلوتا بھائی قتل

اسسٹنٹ کمشنر لورالائی جمیل بلوچ کا کہنا ہے کہ اب تک واقعے کی وجہ معلوم نہیں ہو سکی ہے۔
بلوچستان کے ضلع لورالائی میں پکنک پر جانے والے سکول کے چار طلبہ کو یرغمال بنا لیا گیا۔ اس دوران مزاحمت کرنے پر ایک 17 سالہ طالب علم کو گولیاں اور خنجر مار کر قتل اور باقی تین کو زخمی کر دیا گیا۔
حکام کے مطابق طالب علموں پر حملہ کرنے والا ملزم اکیلا تھا جو فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ اسسٹنٹ کمشنر لورالائی جمیل بلوچ کے مطابق واقعہ کی اصل وجہ اب تک معلوم نہیں ہوسکی ہے تاہم اس کی مختلف پہلوؤں پر تحقیقات شروع کردی گئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ واقعہ لورالائی سے تقریباً 15 کلومیٹر دور تفریحی مقام کوہار ڈیم کے قریب پیش آیا جہاں ایک نجی سکول کے چار طالب علم پکنک منانے گئے تھے۔
مقتول طالب علم کی شناخت لورالائی کے علاقے شاہ کاریز کے رہائشی اسرار خان کے نام سے ہوئی ہے جو چھ بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا۔ اسرار کی لاش گھر پہنچنے پر گھر اور علاقے میں کہرام مچ گیا۔
اسرار کے چچا چیئرمین نظر محمد اوتمانخیل نے اردو نیوز کو ٹیلیفون پر بتایا کہ اسرار کی موت نے ان کے ماں باپ کو توڑ کر رکھ دیا ہے۔
’پورے خاندان کو پہاڑ جتنا غم دے دیا ہے۔ ان کی بہنیں اکلوتا بھائی چھن جانے پر صدمے سے نڈھال ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ اسرار کو ماں باپ نے بہت لاڈ پیار سے پالا تھا۔ ہمیں نہیں معلوم کہ اسرار کو کیوں مارا گیا یہ دہشت گردی کے سوا کچھ نہیں۔ حکومت قاتل کو گرفتار کرکے ہمیں انصاف فراہم کرے۔
نظر محمد اوتمانخیل نے بتایا کہ اسرار نویں کلاس کا طالبعلم تھا وہ اتوار کو اپنے ماموں زاد بھائی محمد یار اور سکول کے دو دیگر دوستوں کے ہمراہ موٹر سائیکلوں پر پکنک منانے کوہار ڈیم گئے تھے۔
نظر محمد اوتمانخیل نے بتایا کہ واقعہ میں زخمی ہونے والے عینی شاہد محمد یار نے گھر والوں کو بتایا ہے کہ ’دوپہر کے وقت وہ کھانا پکا رہے تھے کہ اس دوران ایک نامعلوم شخص ہوائی فائر کرتے ہوئے آیا۔ ہمیں اسلحہ دکھا کر پیچھے مڑ جانے کو کہا اور دھمکی دی کہ کوئی حرکت کی تو گولی مار دی جائے گی۔‘

ایس ایچ او نے بتایا کہ اب تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ ملزم اگر موٹرسائیکل چھیننا چاہتا تھا تو تین گھنٹے سے زائد طالبعلموں کو یرغمال کیوں بنائے رکھا۔

محمد یار کے مطابق ’ملزم نے انہیں اسی طرح تین گھنٹوں تک یرغمال بنائے رکھا اور ٹیلیفون پر مسلسل کسی سے گفتگو کرتا رہا۔ ہمیں اس کا مقصد سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ چاہتا کیا ہے؟ جب شام ڈھلنے لگی تو ہم نے ملزم سے کہا کہ ہمیں جانے دو۔‘
عینی شاہد نے بتایا کہ ’ملزم نے ہماری ایک نہیں سنی تو اندھیرا چھا جانے کے ڈر سے ہم نے بھاگنے کی کوشش کی۔ ملزم نے گولی چلائی جو سیدھا جا کر اسرار کو لگی اور وہ وہیں گر گیا۔ ہم اسرار کو زخمی دیکھ کر جذباتی ہو گئے اور ملزم پر حملہ کر دیا۔ ملزم نے کئی فائر کیے جن میں سے ایک مجھے لگا۔‘
’ملزم کے پاس خنجر بھی تھا۔ گولیاں ختم ہونے پر اس نے خنجر کے وار کیے جس سے ہم تینوں زخمی ہو گئے۔ ملزم مقتول اسرار کی نئی موٹر سائیکل پر بیٹھ کر فرار ہوگیا جبکہ باقی دو طالب علموں نے کچھ فاصلے پر رہائش پذیر خانہ بدوشوں کے پاس جا کر موبائل فون پر گھر والو ں کو اطلاع دی۔‘
محمد یار کے مطابق وہ اسرار کی لاش چھوڑ کر پیدل ہی زخمی حالت میں کئی کلومیٹر چلا  تاکہ کسی کو خبر کر سکے۔
بعد ازاں اطلاع ملنے پر طالب علموں کے رشتہ دار، لیویز اور پولیس موقع پر پہنچی اور زخمیوں کو ہسپتال پہنچایا۔ ایس ایچ او لورالائی پولیس کریم مندوخیل نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’دو شدید زخمی ہیں جبکہ ایک معمولی زخمی ہوا ہے۔ ایک شدید زخمی کو کوئٹہ منتقل کر دیا گیا۔‘
ایس ایچ او نے بتایا کہ اب تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ ملزم اگر موٹرسائیکل چھیننا چاہتا تھا تو تین گھنٹے سے زائد طالب علموں کو یرغمال کیوں بنائے رکھا۔
انہوں نے بتایا کہ واقعہ لیویز ایریا میں پیش آیا ہے تاہم پولیس تفتیش میں لیویز کی معاونت کر رہی ہے۔

طالب علموں پر حملے کے خلاف احتجاجاً مقتول کے لواحقین اور علاقے کے مکینوں نے  لورالائی کوئٹہ شاہراہ پر رکاوٹیں کھڑی کرکے بند کردی۔

پولیس کے پاس مطلوب اور اشتہاری ملزمان کی تصاویر اور کوائف موجود ہیں جو عینی شاہد طالب علموں کو دکھائے گئے اور ان کی مدد سے ملزم کی تلاش کی جا رہی ہے۔
اسسٹنٹ کمشنر لورالائی جمیل بلوچ کا کہنا ہے کہ اب تک واقعہ کی وجہ معلوم نہیں ہو سکی ہے تاہم ڈکیتی سمیت مختلف پہلوؤں پر تفتیش کی جا رہی ہے۔
طالب علموں پر حملے کے خلاف مقتول کے لواحقین اور علاقے کے مکینوں نے  لورالائی کوئٹہ شاہراہ پر رکاوٹیں کھڑی کرکے بند کر دی اور احتجاج ریکارڈ کرایا۔ احتجاج کی قیادت کرنے والے عبدالہادی اخوندزادہ نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’طالب علموں کو اغوا کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس سے پہلے بھی شہر میں اغوا کی کئی وارداتیں ہو چکی ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ملزم اکیلا نہیں تھا یقیناً وہ ٹیلیفون کر کے باقی ساتھی ملزمان کو بلا رہا تھا اور مزاحمت کرنے پر طلبہ پر گولیاں اور خنجر چلایا۔‘
عبدالہادی اخوندزادہ کے مطابق یہ واقعہ شہر کا امن و امان خراب کرنے کی سازش ہے۔ حکومت ملزمان کو فوری گرفتار کرکے واقعے کے محرکات کو سامنے لائیں۔

شیئر: